ایشز سیریز

مینزٹرافی میں وکٹوں کی ’’بیلز‘‘ ،ویمنزٹرافی میںکرکٹ بیٹ کی راکھ محفوظ ہے
انگش اخبارات میں شائع ہونے والی ’’تعزیتی حبریں‘‘ سیریز کے آغاز کا باعث بنیں

ایشیزسیریز ، کرکٹ کی تاریخ کی سب سے قدیم ٹیسٹ سیریز ہے،جو دو روایتی حریفوں کے درمیان ہر دوسال بعدمنعقد ہوتی ہے۔سیریز جیتنے والی ٹیم کو جو ٹرافی دی جاتی ہے، وہ گل دان کی شکل کی ہوتی ہے جس میں کرکٹ کی گیند یا بیلز(Bails)کی راکھ محفوظ ہوتی ہے۔ اس سیریز کا آغاز 1882ءمیں انگلینڈ کے ہوم گراؤننڈپر ایک میچ میںآسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد ایک دل چسپ واقعے سے ہوا۔برطانوی سرزمین پر ایک میچ میں شکست نےبرطانیہ کو اس حد تک برانگیختہ کردیا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنے لگے۔ برطانوی اخبارات نے اس شکست کو دل چسپ پیرائے میں پیش کیا۔ ’’تعزیتی خبروں‘‘ کی اشاعت نے آسٹریلوی عوام کے دل پر بھی اثر کیا اور دوسری سیریز میں آسٹریلیا کی شکست کے بعد آسٹریلین خواتین کی جانب سے وکٹوں پر رکھی جانے والی بیلز(Bails)جلا کر ان کی راکھ ایک چھوٹی سی ایش ٹرے میں رکھی، جو 11سینٹی میٹر اونچی ، گل دان کی طرح تھی ، ٹرافی کی صورت میںانگلش ٹیم کے کپتان کو پیش کی گئی۔اس واقعے اور’’راکھ بھری ٹرافی‘‘ نے اتنی شہرت اختیار کی کہ بعد ازاں دونوں ممالک ایشز سیریز کے نام سے ٹورنامنٹ کے انعقادکے لیے متفق ہوگئے۔

کرکٹ کا آغاز 1550ء میں گلڈفورڈ، سرے کاؤنٹی سے ہوا لیکن پہلا باقاعدہ میچ سینٹرل لندن میں سٹی روڈ کے بالمقابل آرٹلری گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔1787میں میری لی بون کرکٹ کلب(ایم سی سی) کا قیام عمل میں آیا ۔ 1846 میں ولیم کلارک نے آل انگلینڈ الیون کی بنیاد رکھی، جب کہ دوسری ٹیم یونائیٹڈ آل انگلینڈ کے نام سے بنائی گئی، جن کے مابین 1847سے1856تک ہر سال ٹوررنامنٹ منعقد ہوتے تھے۔ 19ویں صدی میں اس کھیل کی مقبولیت امریکا ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی پہنچ گئی اوران ممالک میں بھی میچز کا انعقاد ہونے لگا۔ 1859میں انگلش کرکٹ ٹیم نے پہلی مرتبہ کپتان’’ جارج پار‘‘کی قیادت میں امریکا اور کینیڈا کا دوستانہ دورہ کیا۔چند سال کےمختصر عرصے میںآسٹریلین کرکٹ ٹیم ایک مضبوط حریف کے طور پربرطانیہ کے مدمقابل آئی۔1877 میں دونوں ٹیموں کے درمیان پہلی آفیشل ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی۔مارچ 1877ء میںا نگلش کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا اور وہاںمیلبورن کرکٹ گراؤنڈ پرآسٹریلین کمبائنڈ الیون اورآل یونائٹیڈ انگلینڈ الیون کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کا انعقاد ہوا۔ پہلا ٹیسٹ میچ 15مارچ کو کھیلا گیاجو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے اُمر ہوگیا، اس میں انگلینڈ کو 45رنز سے شکست ہوئی، دو ہفتے بعد 31مارچ کو اسی گراؤنڈ پر دوسرے ٹیسٹ میچ کا انعقاد ہوا جس میں انگلینڈ نے اپنی حریف ٹیم کو4وکٹوں سے شکست دی، لیکن اس میچ کو پہلے میچ جیسی یادگار حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ مذکورہ ٹیسٹ میچ میں کرکٹ کی تاریخ کے کئی ریکارڈ قائم ہوئے، جب کہ اوول گراؤنڈ کو پہلے میچ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ آسٹریلوی بلے باز ، چارلس بینرمین نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی پہلی سنچری اسکور کی۔ ستمبر 1880میں آسٹریلوی ٹیم نے برطانیہ کا دورہ کیا اور اوول گراؤنڈ پر اس نے اپنے دورے کا واحدٹیسٹ میچ کھیلا جس میںانگلش ٹیم نے اسے 5وکٹوں سے شکست دی، جس کے بعد اوول کا میدان برطانوی عوام کے ذہن میں میں ایک ناقابل تسخیر گراؤنڈ بن گیا۔ اس کے بعد اس گراؤنڈ پر متعدد کاؤنٹی میچز منعقد ہوئے جن میں آل یونائٹیڈ انگلینڈ ی ٹیم سرخرو رہی ۔ 1882ء میں آسٹریلیا کی ٹیم دوسری مرتبہ انگلینڈ کے دورے پرآئی۔ 29اگست 1882کو اوول کے میدان میں دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ کا انعقاد ہوا لیکن اوول کی وکٹیں 1880 کے مقابلے میںدونوں ٹیموں کے لیے مردہ ثابت ہوئیں۔سابقہ میچ میں انگلش کھلاڑی ڈبلیوجی گریس اور آسٹریلین بلے باز ،بلی مردوک نے طویل اننگز کھیلی تھیںلیکن1882 کے میچ کی پہلی اننگز میں دونوں ٹیمیں انتہائی کم اسکور کرسکیں۔ دوسری اننگز میںآسٹریلوی ٹیم صرف 55رنز کے اسکور پر آؤٹ ہوگئی،انگلش کھلاڑی بھی قابل ذکر کارکردگی پیش نہ کرسکے، ایک موقع پر برطانوی ٹیم کو میچ جیتنے کے لیے صرف 85رنز درکار تھے جب کہ اس کے سات بلے باز باقی تھے۔ انگلش شائقین اور کرکٹ کے مبصرین کو مکمل یقین تھا کہ برطانوی ٹیم کی کھیل پر حکم رانی برقرار رہے گی اوروہ آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کرکے وطن واپس بھیجے گی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، آسٹریلوی بالرز کی تیز گیندوں کے سامنے انگلش بلے بازوں کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگیا اورڈبلیو جی گریس جیسے ٹاپ آرڈر بلے باز انتہائی معمولی اسکور پر آؤٹ ہوئے۔ ان کے آؤٹ ہوتے ہیںانگلش بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اس کے تمام بلے باز معمولی اسکور پر پویلین واپس لوٹے۔ آخری بلے باز ٹیڈ پیٹے جب بیٹنگ کے لیے آئے تو انگلینڈ کو میچ جیتنے کے صرف 10رنز کی ضرورت تھی ، لیکن وہ بھی اپنی ٹیم کے اسکور میں صرف 2رنز کا اضافہ کر کے آؤٹ ہوگئے۔ برطانوی شائقین کو اس ہار کا اتنا صدمہ ہوا کہ انہوں نے اسٹیڈیم میں ہی اپنے غم و غصے کا اظہار شروع کردیا۔ برطانوی اخبارات میں اس شکست کو ’’انگلش کرکٹ ٹیم کی موت ‘‘ سے تشبیہہ دیتے ہوئے نوحے لکھے گئے۔ 2ستمبر کو لندن کے ایک اخبار ’’دی اسپورٹنگ ٹائمز‘‘ نے ایک نوجوان صحافی ’’ریجنالڈ شرلے بروکس ‘‘کی لکھی ہوئی تعزیتی خبر شائع کی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ’’انگلش کرکٹ کی یاد میں، جس کی29اگست کو اوول کے میدان میں موت واقع ہوگئی، اس کی میت کو آسٹریلیا لے جاکر آگ لگائی جائے گی۔‘‘

اس شکست کے تین ہفتے بعد انگلش ٹیم نے آئیوو بلیف کی قیادت میں آسٹریلیا کا اس عزم کے ساتھ جوابی دورہ کیا کہ وہ اپنی حریف ٹیم کو شکست دے کر انگلش کرکٹ کی چتاکی راکھ کو واپس اپنے وطن لے کر آئے گی۔برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی’’ تعزیتی خبریں‘‘ ، آسٹریلوی شہریوں کی نظروں سے بھی گزریں۔انگلش ٹیم 11نومبر 1882کو آسٹریلیا کے دورے پر پہنچی اور 11نومبر سے 9فروری 1883تک 11 سائیڈ میچز کھیلے گئے ،جن میں سے 5میں انگلش ٹیم نے فتح حاصل کی جب کہ 6ڈرا ہوئے۔ 30دسمبر سے 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا انعقاد ہوا ، مہمان ٹیم نے دو میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرلی۔ سڈنی کے آخری ٹیسٹ میچ میں آسٹریلوی ٹیم شکست سے دوچار ہوئی تھی، میچ کے اختتام پر تین خواتین جن میں میلبورن کرکٹ کلب کے صدر، سر ولیم کلارک کی اہلیہ ، ان کی میوز ک ٹیچرفلورنس مرفی اور جینٹ شامل تھیں، سڈنی اسٹیڈیم میں داخل ہوئیں اور انہوں نے وکٹوں پر رکھی ہوئی بیلز (Bails)اور گیند کو نذر آتش کرنے کے بعد ان کی راکھ اٹھا کر ایک کوزے میں محفوظ کرلی۔ سیریز کے اختتام کے بعد ایسٹر کے تہوار پر میلبورن کرکٹ کلب کے صدر کی جانب سے ان کی رہائش گاہ پر ایک تقریب کااہتمام کیا گیا، جس میں انگلش ٹیم کے کھلاڑیوں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ جب تقریب عروج پر تھی، اچانک لیڈی کلارک کی ہدایت پر فلورنس مرفی نے انگلش ٹیم کے کپتان آئیوو بلیف کو 11سینٹی میٹر اونچی گل دان نما ایش ٹرے پیش کی جس کے بارے میں مہمانوں کو بتایا گیا کہ اس میں شکست خوردہ آسٹریلوی ٹیم کی چتا کی راکھ محفوظ کی گئی ہے جو انگلش ٹیم کو ’’وننگ ٹرافی ‘‘ کی صورت میں پیش کی جارہی ہے۔ بلیف’’ ایشز ٹرافی‘‘ کو لےکر واپس انگلستان پہنچےاور پنے آبائی گھر، ’’کوبہم ہال‘‘ کینٹ میں سجا دی، انگلستان واپسی کے بعد وہ ’’لارڈ ارنلی‘‘ بن گئے۔ اس کے بعد اوول واقعے کی یاد میں ایشز سیریز کا ہر دوسال بعدآسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان باقاعدگی سے انعقادہونے لگا۔ 1884میں بلیف اگلی سیریز میں شرکت کے لیے آسٹریلیا گئے اور اس دفعہ ایشز سیریز جیتنے کے بعد ٹرافی کے ساتھ، فلورنس سے شادی کرکے انہیں بھی اپنے ساتھ وطن لے آئے۔ 1927تک ایشز ٹرافی ان کے گھر میں سجی رہی، ان کی موت کے بعد1929میںان کی بیوہ فلورنس نےیہ ٹرافی ،میری لی بون (ایم سی سی) کرکٹ کلب کو دے دی جو آج بھی لارڈز گراؤنڈ میں ایم سی سی میوزیم میں موجود ہے۔1930میں کھیلوں کی دیگر ٹرافیوں کے ساتھ ایشز ٹرافی بھی نمائش کے لیے رکھی گئی جسے کرکٹ کے شائقین نے اس کی تاریخی اہمیت کی وجہ سےبہت پسند کیا۔1882کا میچ ایشز سیریز کا پہلا میچ تھا،جب سے ہر دوسا ل بعد اس ٹورنامنٹ کا برطانیہ یا آسٹریلیا میں انعقاد کیا جاتا ہے اور جیتنے والی ٹیم کو ایشز ٹرافی دی جاتی ہے۔ا صلی ٹرافی جو صرف پانچ انچ کی ہے، اپنی جگہ رکھی ہوئی ہے، جب کہ سیریز کی فاتح ٹیم کو دھات اور شیشے کی بنی ہوئی گلدان کی شکل کی قدرے بڑی ٹرافی دی جاتی رہی۔-1999میں میری لی بون کلب اورکرکٹ آسٹریلیا کے درمیان ایشز سیریز کی نئی ٹرافی کی تیاری پر اتفاق ہوا۔جو آئرلینڈ کی ’’واٹرفورڈ‘‘ کمپنی میں کرسٹل سے تیار کی گئی ہے ، اورفاتح ٹیم یامیچ ڈرا ہونے کی صورت میںاصل ٹرافی کی نقل کے ساتھ دفاعی چیمپئن کو دی جاتی ہے۔ 1998ء میں آئیوو بلیف کی بہو نے برطانوی پریس کے سامنے انکشاف کیا کہ اصل ایشز ٹرافی میں گیند یا بیلز کی جلی ہوئی راکھ کی بجائے ان کی ساس کے نقاب کی راکھ محفوظ کی گئی تھی۔

1882ءسے 1896ءتک ایشز سیریز کے 12 مقابلوں کا انعقاد ہوا ،جن میں11 برطانیہ، جب کہ ایک سیریز میں آسٹریلیا نے فتح حاصل کی۔1884میں ایشز سیریز کا دوسرا مقابلہ انگلینڈ میں ہوا جس میں دفاعی چیمپئن نے اپنے ٹائٹل کا کامیاب دفاع کیا۔1882سے 2017تک ایشز سیریز کے 70ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوا جن میں سے 33مرتبہ آسٹریلیا اور 32بار انگلش ٹیم نے ٹرافی حاصل کی۔ہر سیریز3سے 6ٹیسٹ میچوں پر مشتمل رہی، جن میں دل چسپ مقابلے دیکھنے میں آئے۔ دونوں ٹیموں نے متعدد مرتبہ جیت کی ہیٹ ٹرک مکمل کی جب کہ انگلینڈ نے ابتدائی دور میں ڈبل ہیٹ ٹرک بنائی۔1886میں انگلینڈ میں منعقد ہونے والی3میچوں کی سیریز میں میزبان ملک نے آسٹریلیا کو وائٹ واش کیا۔1897اور1901 میں آسٹریلیا نے سیریز کے5میچوں میں سے 4میچوں میں فتح حاصل کی جب کہ ایک میچ ڈرا ہو۔1948 میںانگلینڈ میں کھیلے گئے میچ میں آسٹریلیا نے تیسری مرتبہ 5میچوں کی سیریز میں سے 4 میچ جیتے جب کہ ایک ڈرا ہوا۔ 1920,2006ءاور 2013ءمیں آسٹریلیا نےاپنی حریف ٹیم کو 5میچوں کی سیریز میںمکمل طور سے وائٹ واش کیا، جب کہ 1964میں انگلینڈ کی ٹیم نے اپنے ہوم گراؤنڈ پر پانچ میچ کھیلے جن میں سے چار میچ ڈرا ہوئے اور ایک میچ جیت کر برطانیہ ٹرافی کا حق دار ٹھہرا۔2017میںآسٹریلوی سرزمین پرکھیلی جانے والے ایشز سیریز کے 5 میچوں میں سے 4میچوں میں انگلینڈ کو شکست ہوئی جب کہ ایک میچ ڈرا ہوا۔

1938میں اپنے ہوم گراؤنڈ پرسیریز کے ایک میچ میں برطانیہ نے بیک وقت تین عالمی ریکارڈ قائم کیے۔ اس نے 903 رنز بناکر سب سے زیادہ مجموعی اسکور کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ، انگلش بلے باز لین ہٹن نے 364 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی جب کہ اسی میچ میں انگلش ٹیم نے آسٹریلیا کو ایک اننگز اور 579 رنز کے بھاری مارجن سے شکست دی۔ اس کا مذکورہ ریکارڈ 59سال بعد سری لنکا کی ٹیم نے بھارت کے خلاف کولمبو ٹیسٹ میں توڑا، اس نے 952رنز کا مجموعہ کھڑا کرکے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

نومبر 2017میں منعقد ہونے والی ایشز سیریز میں آسٹریلوی ٹیم کے کپتان ا سٹیون اسمتھ نے تین سنچریاںکیں ،جن میں سے ایک ڈبل سنچری جب کہ دو ناٹ آؤٹ تھیں۔79 برس بعد انگلینڈ کے خلاف ایشز سیریز میں تین سنچریاں بنانے والے وہ پہلے آسٹریلوی کپتان بن گئے ہیں۔اس سے قبل 1938 میں ڈان بریڈمین نے یہ کارنامہ
انجام دیا تھا۔
ایشز سیریز کا انعقاد
صرف دو دیرینہ حریفوں کےمابین ہوتا ہے، اس لیےیہ مقابلے انہی دو ممالک کے گراؤنڈز پر منعقد کیے جاتے ہیں۔ اب تک جن میدانوں نے ایشیزسیریز کے میچوں کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ہے ان میں آسٹریلیا کے گابا (برسبین)، ایڈیلیڈ اوول (ایڈیلیڈ)، واکا (پرتھ)، میلبورن کرکٹ گراؤنڈ (ملبورن) اور سڈنی کرکٹ گراؤنڈ (سڈنی) شامل ہیں۔ 1928ء میں ایک ٹیسٹ میچ برسبین کے ایگزیبیشنExhibition گراؤنڈ پر بھی کھیلا جاچکا ہے۔انگلینڈ میں سیریز کے زیادہ تر میچزاوول (لندن)، اولڈ ٹریفرڈ (مانچسٹر)، لارڈز (لندن)، ٹرینٹ برج (ناٹنگھم)، ہیڈنگلے (لیڈز) اور ایجبسٹن (برمنگھم) میں منعقدہوچکے ہیں۔ 1902ء میں ایک ٹیسٹ میچ بریمیل لین، شیفیلڈ میں جب کہ 2009ء کی ایشیز ٹیسٹ سیریز میں ایک میچ کارڈف، ویلز کے صوفیہ گارڈنز میں کھیلا گیا۔

ویمن ایشز سیریز
ویمن کرکٹ کا آغاز 1931میں ہوا ،آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان پہلی ویمن ٹیسٹ سیریز 1934میں کھیلی گئی۔ انگلش ٹیم کی کپتان ’’بیٹی آرک ڈیل‘‘ کا کہنا تھا کہ ہم خواتین ،کرکٹ صرف محبتوں کو فروغ دینے کے لیے کھیلتی ہیں، ہمارا مطمع نظر مردوں سے یکسر مختلف ہے، جو اسے جنگ و جدل کے انداز میں کھیلتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں 90 کے عشرے تک ویمن ایشز سیریز کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن 1998میں لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں خواتین کے ایک ٹیسٹ میچ کے انعقاد سے قبل چند خواتین نے کرکٹ بیٹ جس پر آٹو گراف لیے گئے تھے، جلا کر اس کی راکھ لکڑی کی ایک نقلی گیند میں بھر دی جس نے بعد ازاں ’’ویمن ایشز ٹرافی‘‘ کی صورت اختیار کرلی۔ 2001 سے 2017 تک ویمن ایشز ٹرافی کے 23میچز کھیلے جاچکے ہیں۔ ویمن ٹورنامنٹس میں ٹیسٹ میچوں کے علاوہ ایک روزہ اور ٹی ۔20میچز کو بھی ایشز سیریز کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سیریز کی فاتح ٹیم کو ’’ویمن ایشز ٹرافی ‘‘ دی جاتی ہے ۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.