کیشئر

فلاحی ریاست کا مقام زندہ کرنا ہو گا۔

بروز جمعہ بتاریح 27-07-2018 بوقت1 بجے دوپہر چھٹی کا ارادہ کرتے ہوئے آفس کے لاکرز بند کر رہا تھا اتنے میں اچانک کالج کے سامنے ایک موٹر بائک آ کر روکتی ہے جس پر سوار ایک نو عمر لڑکا ایک عورت اور ایک تقریبا پندرہ سال کی لڑکی موٹر سائیکل سے اترتے ہیں اور میں اندازہ لگا لیا کے یہ عورت اس لڑکے اور لڑکی کی ماں ہو گی اور میرا اندازہ عین درست نکلا وہ لڑکا موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر لگا رہا تھا اور وہ عورت اپنی بیٹی کے ہمراہ کالج کی جانب قدم بڑھانے لگی وہ کالج جہاں میں وائس پرنسپل کی حثیت سے کام کرتا ہوں اور اس کالج کا نام سمز گرلز کالج ڈالووالی سیالکوٹ ہے جب وہ عورت اپنی بیٹی کے ہمراہ کالج کے میں گیٹ سے اندر داخل ہوتی ہیں تو ان کی نظر کالج کے گارڈ انکل محمد انور صاحب پر پڑتی ہے جو ایک نہائت ہی نفیس اور خوش مزاج انسان ہیں جن کی آواز میں نعت سننے کا ایک الگ ہی سرور اور مسرت ہے جو کہ میں اکثر ان سے سن کر سرور حاصل کرتا رہتا ہوں تو وہ عورت انکل جی سے محاطب ہو کر بولنے لگی کہ پا جی تسی ایتھے کیوں ہمارے گارڈ انکل کسی زمانے میں ان کے میاں کے ساتھ سرجیکل کا کام کیا کرتے تھے جس وجہ سے ان کے گھر بھی ان کا آنا جانا تھا اور شناحت بھی تھی انہیں باتوں کے دوران گارڈ انکل ان کو میرے آفس لے آئے اور بولے سر ان کی فیس کے معاملے میں شفقت فرمائیے گا یہ میرے جاننے والے ہیں تو میں نے کہا جو آپ کا حکم میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ آفس سے باہر چلے گئے جیسا کے ہمارے ہاں ہوتا ہے اکثر۔ ہم اس سٹاف کو اتنا ہی سنتے ہیں جبکہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ہر کسی کے نقطہ نظر کو سنیں اور اہمیت بھی دیں لیکن ایسا نہیں۔ تو بہر حال میں نے ان باجی جی اور اس لڑکی کا بڑی شائستگی سے حال پوچھتے ہوئے ان کو تشریف رکھنے کا کہا۔ تو وہ دونو ماں بیٹی میرے ٹیبل کے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔ اور وہ لڑکی بولی اور کہنے لگی سر میں نے داخلہ لینا ہے اس کی والدہ بیچاری سادی سی لگ رہی تھی مطلب ان کو علم نہیں تھا کہ کیا بات کروں تو ان کی بیٹی مجھ سے بات کر رہی تھی بڑی با اعتماد اور اس کی نظروں ایک بہت ہی محنت اور نظر آ رہی تھی تو اس کے سوال کے جواب میں میں نے پوچھا بیٹا آپ کس کلاس میں داخلہ لینا چاہتی ہیں تو وہ بولی سر میں نے I.com کرنا ہے اس طرح میں تمام تفصیل اس لڑکی اور اس کے والد اور ذریعہ آمدن کے بارے اکٹھی کر لی اور اپنے پاس انکوائری فارم میں درج کر دی تا کہ ثبوت رہے تو اس کے بعد اس کی والدہ مجھے پنجابی میں پوچھنے لگی کے بھائی تہاڈی فیس کینی اے۔ تو میں نے کو فیس کی تمام تفصیل فراہم کی تو کہنے لگی کہ ہم تو اتنی فیس ادا نہیں کر سکتے بس ان کی یہ بات کرنی تھی کہ وہ لڑکی بول پڑی اور کہنے سر اس میں ڈسکاؤنٹ کر دیں تو میں نے کہا کہ میں آپ کو دس فیصد چھوڑ دیتا ہوں تو کہنے لگی سر میں نے میٹرک کے امتحان کے بعد ایک بیکری میں ایک کیشئر کی حیثیت سے ملازمت احتیار کر کے اپنی آئندہ پڑھائی کے لئے پیسے جمع کیۓ ہیں جو کہ آپ کی فیس کی نسبت کم ہیں تو پلیز آپ کم کر دیں کیونکہ ہم چار بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے تو ابو کی آمدن سے بمشکل گھر کا نظام چلتا ہے آپ مہربانی فرمائیے تو بس اس کی یہ بات کرنی تھی کہ مجھے چپ لگ گئی اب وہ بول رہی ہے اور میں سن رہا ہوں۔ اور دیکھ رہا ہوں کہ اس کے چہرے پر اعتماد یقین کامیابی اور کچھ کر گزرنے کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ اس کو بہت کچھ کرنے اور اپنے ملک کا نام روشن کرنے کی شدت سے جلدی ہے میرے قدموں نیچے سے زمین نکلی جا رہی تھی میرے دفتر کی دیواریں مجھے گھومتی نظر آنے لگیں مجھے عدل محمد صلی اللہ علیہ وسلم یاد آنے لگا مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ تعالی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی حضرت علی علیہ السلام کی یاد ستانے لگی آج اگر یہ حکمران ان سب کے نقش قدم پر چل رہے ہوتے تو یہ بچی اوائل عمری میں کیشئر کی نوکری کر کے اپنی پڑھائی کے لئے پیسوں کا بندوبست نہ کرنا پڑتا آج یہ بچی بھی خوشی سے زندگی گزار رہی ہوتی اتنا سب کچھ ہونے باوجود بھی مجھے اس بچی کے چہرے پر ناامیدی نظر نہیں آئی بلکہ وہ پر امید تھی۔ اور ساتھ ساتھ اپنی والدہ کو تسلی بھی دے رہی تھی کہ امی آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں یہ سب کچھ سننے کے بعد 1400 سال پہلے کی یاد میں مبتلا تھا تو وہ بولی سر اگر آپ کے لئے ممکن نہیں تو کوئی بات نہیں ظاہر ہے آپ لوگوں کے بھی اخراجات ہوتے ہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ابھی بس اس کی بات سن کے میں اچانک بولا کہ کیا کہا آپ نے تو کہنے لگی سر میں نے کہا ممکن ہے کہ نہیں تو میں کہا بیٹا آپ کی والدہ جو حکم کہیں مجھے منظور ہے۔ آپ جتنی بھی فیس آسانی سے دے سکتے ہیں مجھے منظور ہے۔ تو میرا معاملہ ان سے طے پا گیا اور ان کی مرضی کے مطابق فیس طے ہو گئی۔ تو اس سب کے بعد مجھے سکون حقیقی ملا اور وہ ماں بیٹی مجھے دعائیں دیتی ہوئی اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئیں۔ یہ تو صرف ایک معاملہ ہے لیکن خدا جانے کتنی بچیاں اور بچے اس صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو ان کے لئے کوئی فرصت ہی نہیں۔ کسی کو اس طرف نظر دہرانیں کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تو آرمی چیف اور چیف جسٹس جن یہ کام تو نہیں لیکن میری ان سے درخواست ہے کہ آپ ہی ان تمام چیزوں کی طرف حکمرانوں کی توجہ کروانے میں کردار ادا کریں اسکا اجر آپ کو اللہ کی جانب سے ضرور ملے گا ایسی تمام طالبات اور طلبہ کے لیے میری نیک تمنائیں اور کوششیں جاری و ساری رہے گی۔ کیونکہ ایک نہیں بلکہ ہزاروں ایسے کیس ہمارے اردگرد ہیں جو میرے آپ کے اور حکومت کے منتظر ہیں۔ تو خدارا ایسے لوگوں کی جانب قدم بڑھائیں اور ان کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر ان کے لئے آسانی کا باعث بن جائیں۔ اس طرح ہمارے اپنے معاملات میں اللہ کی طرف سے ایک خاص برکت ہوگی۔ اور آپ کے نام کا ایک درخت اس اور اس دنیا میں لگ جائے گا۔ اور آپ اور مجھ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی۔ یہی وہ ذریعہ ہے جہاں سے حقیقی سکون میسر ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات اس طرح کے تمام طلباء و طالبات کے لئے اسانیاں پیدا فرمائے اور ہم سب کو ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اللہ کی ذات میری اس ععض پاک کو ایسے لوگوں کے لئے جگہ سکون بنا دے۔ پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد

Ashir Ali Janjua
About the Author: Ashir Ali Janjua Read More Articles by Ashir Ali Janjua: 9 Articles with 6369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.