تحریر: انیلہ افضال،لاہور
اﷲ جل شانہ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ انسان اس کی عبادت کرے۔ قرآن مجید
میں پڑھتے ہیں ’’ میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا سوائے اس لیے کہ وہ میری
عبادت کریں ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید تاکید سے یہ بات بیان کر رہا ہے کہ
انبیاء الٰہی و مرسلین کے اہم ترین اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کو
خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیں۔ رب العالمین فرماتا ہے ’’اوریقینا
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت
سے اجتناب کرو‘‘۔ مزید فرمایا ’’اور اﷲ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار
ہے لہٰذا اس کی عبادت کرو اور یہی صراط مستقیم ہے‘‘۔
واضح ہے کہ ایسی عبادت صرف انسان کے تکامل کے لیے ہے چونکہ خدا تعالیٰ کی
ذات میں کوئی نقص نہیں اور نہ ہی اسے اس بات کی حاجت ہے کہ وہ کسی کی عبادت
کے ذریعے اپنی کمزوری کو دور کرے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت اس انسان کے تکامل
کا ایک ذریعہ ہے جو عبادت کو انجام دیتا ہے، یہ عبادات خدا تعالیٰ کے لیے
کمال کے حصول کا ذریعہ نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے ’’اور روئے زمین کے
تمام بسنے والے بھی کافر ہوجائیں تو ہمارا اﷲ سب سے بے نیاز ہے اور وہ قابل
حمد و ستائش‘‘۔
اسلام کے تصور عبادت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظ
عبادت کے معنی و مفہوم کو جو عربی زبان ہی کا ایک لفظ ہے، ذہن نشین کر لیں۔
عبادت کے لغوی معنی انتہائی عجز وتذلل کے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں’
’عبودیت کے معنی اظہار فروتنی کے ہیں اور عبادت کے معنی اس سے بھی ایک درجہ
آگے یعنی غایت درجہ فروتنی کے ہیں۔ اس کی مستحق صرف وہ ذات ہے جس کی
مہربانیاں بے پایاں ہیں۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے:صرف اسی کی عبادت کرو۔‘‘
معروف عربی لغت لسان العرب میں ہے ’’عبادت کے معنی اطاعت کے ہیں۔’ ’عبد
الطاغوت‘‘ یعنی اس نے طاغوت کی اطاعت کی اور اسی معنی میں اﷲ تعالیٰ کا قول
ہے’ ’ایاک نعبد‘ ‘ یعنی ہم تیری ہی عاجزانہ اطاعت کرتے ہیں اور لغت میں
عبادت کے معنی اطاعت مع الخضوع ہیں۔ چنانچہ عبادت کے ساتھ عاجزی و انکساری
کا ہونا لازمی ہے۔
عبادت کی منزل تقویٰ کا حصول ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے
کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جس کے باعث کوئی شخص عذاب کا مستحق قرار پائے۔
جیسے کفر و شرک، بے حیائی اور حرام چیزوں سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی
کرنا۔ تقویٰ کو یوں بیان بھی کیا گیا ہے ’’ تیرا رب تجھے وہاں نا پائے جہاں
اس نے منع کیا ہے‘‘۔ یا یوں کہیے کہ تقویٰ انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو
تمام انبیا کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔
فروتنی است دلیل رسیدگان کمال
کہ چوں سوار بمنزل رسد پیدہ خود
یعنی اہل کمال کی نشانی عاجزی اور انکساری ہے آپ نے دیکھا نہیں کہ سوار ج
منزل مقصود پر پہنچتا ہے تو پیادہ ہو جاتا ہے۔اب جب منزل کے بارے میں جان
گئے ہیں تو اس منزل پر پہنچنے کے لیے ہمیں زاد راہ کی ضرورت تو پڑے گی۔
عبادت کی راہ میں تقویٰ ہماری منزل ہے اور اخلاص اور خشیت الٰہی ہمارا زاد
راہ ہے۔ انسانیت کی پیدائش کا بنیادی مقصد اﷲ تعالیٰ کی ’’عبادت ‘‘ ہے اور
عبادت میں جان ہے ’’اخلاص‘‘ سے پڑتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اے نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم ! کہہ دیجئے کہ بے شک میری نمازاور میری قربانی اور میرا
جینا اور میرا مرنا (سب) اﷲ کے لیے ہی ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا
ہے‘‘۔
چنانچہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو اس جسم
کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، گویا اخلاص عبادات وا عمال میں روح کی حیثیت
رکھتا ہے۔ ہر انسان کابنیادی مطمحِ نظر یہی ہونا چاہیے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی
عبادت کرکے اس کی رضاکوحاصل کرے اور جنت کادخول انھیں نصیب ہو، اس مقصدکے
لیے اخلاص کا ہونا ضروری ہے، اﷲ تعالیٰ کے یہاں اعمال کاحسن معتبرہے نہ کہ
محض کثرت، جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے ’’وہ تمہیں ضرور آزمائے گا کہ تاکہ
وہ جان لے کہ تم میں سے کون ہے جو بہتر اعمال کرنے والا ہے‘‘ ۔
مذکورہ آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اعمال کے حسن کو جانچنے کا تذکرہ کیا ہے کثرت
کا نہیں۔ چنانچہ اعمال کی قبولیت اور اس پراجر و ثواب کے حصول کے لیے اس
میں روحانیت واخلاص اور کیفیت کااعتبار ہے نہ کہ محض تعداد یا قلت وکثرت
کا۔ مفسرین کے مطابق ’’احسن عمل‘‘ سے مراد وہ نیکی ہے کہ جو اخلاص پر مبنی
ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ اس آیت کے پیش نظر علما محققین نے اعمالِ صالحہ
کی قبولیت کے لیے 2شرطیں ذکر کی ہیں: (1) اخلاص یعنی وہ عمل صرف اﷲ تعالیٰ
کی رضا کے حصول کے لیے کیاجائے۔ (2) اتباعِ سنت یعنی وہ عمل قرآن وسنت کی
تعلیمات کے موافق ہو۔ بدعت یاکسی اور طرح سے خلاف شرع نہ ہو۔
ایک حدیث میں خاتم النّبیین رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اﷲ
تعالیٰ متقی، مخلوق سے مستغنی اور اخفا پسند بندے کو پسند فرماتے ہیں‘‘۔ اس
حدیث میں 3صفات والے بندے کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا محبوب قراردیا ہے۔ (1)
متقی: وہ بندہ جو ظاہر وباطن میں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے
ڈرتا ہواور اس کی معصیت سے بچتا ہو۔ (2) غنی: وہ بندہ جو لوگوں کے مال وجاہ
سے کوئی غرض اور کوئی حرص ومفاد وابستہ نہ رکھتا ہوبلکہ صرف اﷲ تعالیٰ کے
سامنے اپنے فقر وحاجت کااظہار کرتا ہو، وہ مخلوق سے استغناء برتتا ہو اور
اﷲ کے سامنے خود کومحتاج بنا کررکھتا ہو۔ (3) خفی: وہ بندہ جو اپنے نیک
اعمال بھی مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپ کرکرتا ہو اور اگر کوئی گناہ
صادر ہوجاتا ہو تو اس کوبھی چھپاتا ہواور اس پر خوب توبہ واستغفار کرتا ہو،
کیوں کہ اپنے گناہوں کابندوں کے سامنے اظہار بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں۔
اب خشیت الٰہی کا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ خشیت یعنی خوف، خوف دل کی بے چینی
کا نام ہے۔ جب انسان حرام کام اور معاصیات کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا دل
اﷲ کے خوف سے لرز جاتا ہے۔ اسی طرح اﷲ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا اسے
چھوڑنے سے بھی دل بے چین ہوجاتا ہے یا ان پر عمل کرکے عدم قبولیت کا خدشہ
محسوس کرتا رہتا ہے اسی کا نام خوف الٰہی ہے۔ ایک مومن سے یہ خوف مطلوب ہے
کیونکہ اﷲ کا خوف عبادت ہے اور توحید میں شامل ہے۔قرآن میں خوف سے متعلق
متعدد قسم کے الفاظ وکلمے آئے ہیں جن میں اﷲ سے ڈرنے کا حکم اور تلقین کی
گئی ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے یہاں تک فرمادیا کہ ’’اﷲ سے ڈرنے والے علم والے لوگ ہیں ‘‘۔
مگر افسوس بھی اسی بات کا ہے کہ آج علم والوں کی کمی نہیں، کمی ہے تو صرف
اﷲ سے ڈرنے والوں کی۔ انسان کو خوف خدا ہو تو شاید کبھی وہ گناہ کے قریب تک
بھی نہ بھٹکے ۔ اس لیے مذکورہ بالا تمام امور انسانی زندگی اور نیکی کی
قبولیت کے اہم ترین جز ہیں۔ اﷲ ہمیں متقی اور پرہیز گار بنائے ، آمین
|