خوشحال گھرانے کے رہنما اصول

نپولین بونا پارٹ نے کیا خوب کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔بلا شبہ ماں کی گود ایسی مؤ ثر درسگاہ ہے جس کے اثرات بچوں کی شخصیت پردیرپا نقش ہو جاتے ہیں۔اسی طرح والد کا سایہ شفقت بھی بچوں کی زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے۔بچوں کے ساتھ والد اور والدہ کا متوازن رویہ کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔اگر والد کا رویہ سخت گیر ہو تو والدہ کے رویہ میں نرمی ہونی چاہئے اگر کسی موقع پر ماں کا رویہ سخت ہو جائے تو باپ کو پھر نرمی دکھانی ہو گی۔ اپنے بچوں کے ساتھ اگر والدین کا رویہ نرم ہو تو تو بھی اچھی بات نہیں اور اگر تلخ ہو تو بھی برا ہے لھذا اس میں اعتدال اور میانہ روی ہی بہترین اصول ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت فریضہ ہے۔جس میں والدین ،اساتذہ،سوسائٹی،میڈیا اور بچے حصہ لیتے ہیں۔لیکن پھر بھی والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی احسن طریقے سے تربیت کریں کیونکہ بچے اٹھارہ گھنٹے والدین کے پاس ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ بچے وہ کچھ کرتے ہیں جو والدین کرتے ہیں اور وہ نہیں کرتے جو والدین انہیں کہتے ہیں۔جی چاہتا ہے کہ یہاں کچھ اصولوں کا ذکر کروں کہ جن پر چل کر والدین اپنے گھرانوں کو خوشحال اور پر سکون رکھ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ بچوں کے کردار میں پختگی اور احساس ذمہ داری پیدا کی جائے اور اس کے لئے باھمی مشاورت سے رہنما اصول وضع کر لیں ۔کسی قاعدے اور قانون کے متابق ذندگی بسر کریں تو کامیابھی ان کے قدم چومے گی۔ورنہ دوسری صورت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سب سے پہلے نرم، شائستگی والی مہذب زبان استعمال کریں۔گالم گلوچ والی زبان سے گریز کریں کیونکہ ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے سے دلوں میں کدورت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ چھوٹوں پر شفقت کیجئے اور بڑوں کی عزت۔ اپنے خیالات و احساسات کو احسن طریقے سے دوسروں تک پہنچائے۔ ہر ایک کا اپنا مؤقف ہوتا قطع نظر وہ بڑا ہے یا چھوٹا ہے اس کی قدر کیجئے اور کسی کی بات کو نہ کاٹیں بلکہ غور سے سنیں۔ دوسرے کی بات ختم ہونے کے بعد اپنی بات سنائیں۔دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔گفتگو کرتے وقت موقع و محل کا خیال رکھنا چاہئے مہربانی اور جزاک اﷲ کے الفاظ کسی نیک کام کے بدلے میں دھرائے جا سکتے ہیں۔لہجہ اتنا دھیما بھی نہ ہو کہ دوسرے کو سننے میں دشواری ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ بری لگے بلکہ معتدل انداز گفتگو ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔کوئی اہم کام کرنے سے پہلے باہمی مشورہ کیا جائے اور اگر اجتماعی ہو تو لازمی مشورہ کیا جائے جسے منصوبہ بندی بھی کہتے ہیں او ر پلیننگ بھی۔مشاورت سے کام آسان ہو جاتا ہے۔والدین کے مشورے پر تو لازمی عمل کرنا چاہئے۔صبح اٹھتے وقت اور گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کو معمول بنا لیا جائے۔گھر میں انے والے مہمان بھی گھر کے قوانین کا احترام کریں۔مہمانوں کے ٓانے پر انہیں خوش آمدید کہا جائے ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے مہمان کو باعث رحمت وبرکت سمجھا جائے۔ہر کوئی اپنا کام خود کرے کسی پر رعب و دبدبہ ڈالنے کی ضرورت نہیں اپنے کمرے کی صفائی ستھرائی کا کام خود کرنا چاہئے۔والدین کو بھی چاہئے کہ وہ بیٹیوں کو اﷲ کی رحمت اور بیٹوں کو اﷲ کی نعمت سمجھ کر ان کے ساتھ شفقت اور برابری کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ایسا سلوک روا رکھا جائے کہ بچوں میں ہٹ دھرمی کے جزبات اور بچیوں میں احساس کمتری کے جزبات پیدا نہ ہوں۔کسی کے کمرے میں اجاذت کے بغیر داخل نہ ہو۔والدین کے احترام کا خاص خیال رکھا جائے۔ان کے آرام میں خلل نہ ڈالا جائے یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ جو بھی دروازہ ، کھڑکی وغیرہ کھولے اسے بند کرنے کا بھی زمے دارہو گا۔کوئی چیز گر جائے تو اسے اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دے۔کسی کی اجازت کے بغیر اس کی کو ئی چیز استعمال نہ کی جائے۔اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ معاف کر دینا اور سوری کہ دینا چاہیے۔گھر کے افراد نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ،فارغ وقت میں قرآنی آیات،احادیث اور اچھی کتب کا مطالعہ کر کے وعظ و نصیحت کی محفل جمانا چاہیے۔ رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈالنا بہترین حکمت عملی ہے۔صبح ہوتے ہی فالتو بتیاں بند کر دیجئے اور رات کے وقت بھی۔ بجلی،گیس اور پانی کا استعمال ضرورت کے مطابق کریں اور فضول خرچی سے مکمل گریز کریں ۔اپنے ریسورسز کو احسن طریقے سے استعمال کریں۔بخل سے کام بھی نہ لیں اور فضول خرچی بھی نہ کریں بلکہ میانہ روی سے پیسوں کا استعمال کریں تا کہ آپ کو زندگی میں سہولیات ملتی رہیں۔کھا نے پینے کے امور میں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔کوشش کر یں کہ سب ایک ہی جگہ مل جل کر کھانا کھائیں کوئی ایک اکیلے یا چھپ کے کھانا ہر گز نہ کھائیں ۔کھانے کے لئے اپنی عادات کو حفظان صھت کے اصولوں کے مطابق بنائیں ۔گھر کے تمام افراد گھر کی تمام چیزوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔بحث و تکرار ،تنقید اور کڑوی کسیلی باتوں سے گریز کریں اسی طرح اچھے کاموں کی تعریف کی جائے اور غلط کاموں کی روک تھام کی جائے ضروریات زندگی کی تمام چیزیں گھر میں رکھنی چاہئے جن کی کسی وقت بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ یہ وہ چند رہنما اصول ہیں جن پر چل کر کوئی بھی فیملی ترقی کر سکتی ہے۔ خوشگوار اور پر سکون زندگی کے مزے لوٹ سکتی ہے۔ضروری نہیں کہ مزکورہ اصول ہی حرف آخر ہوں بلکہ ان میں زمینی حقائق کے مطابق ترامیم بھی کی جا سکتی ہے -

ضرورت اس امر کی ہے کہ درج بالا اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اصول بنائیں باہمی مشاورت سے ان کو فائنل کریں اور ہنسی خوشی شندگی گزاریں اور بے اصولی نہ کریں تو کامیابی ہی کامیابی ہے

Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Muhammad Saleem Afaqi: 21 Articles with 37128 views PhD Scholar in Education
MA International Relations
MA Political Science
MA Islamiyat
.. View More