انسان کو حیوان پر اس لیے سبقت دی جاتی ہی کیونکہ ایک
مخصوص حیوان میں ایک مخصوص قسم کی ہی صفت پائ جا سکتی ہے. جیسے اژدہا میں
اگر سونگھنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو عقاب اپنی کمال نظر کی وجہ سے جانا جاتا
ہے. انسان کو اشرفلمخلوکات اسی بنیاد پر سمجھجاتا ہے کہ کیونکہ یہ ذہنی اور
جسمانی دونوں صفات کا منبع ہے. انسان نے اپنی کھوپڑی میں پائۓ جانے والے
ایک معمولی سے زخیرے جسے دماغ کا نام دیا جاتا ہے, ڈھلتے ابھرتے سورج,
سمندر کی موجوں,فلکیات,پہاڑوں کی چٹانوں, جسم کے خلیے حتی کہ ہر اس چیز پر
قابو پایا ہے جس سے اس دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا ہے. اور اسی چیز نے انسان کو
حیوان سے ممتاز بنایا ہے. جیوان صرف اپنی ایک ہی صفت پہ جیتا ہے اگر اس میں
گڑ بڑ ہو جاے تو اس کا جینا محال ہو جاتا ہے. مگر انسان کے پاس اگر ایک سقت
کی کمی ہو تو وہ باقی چار سے زندگی گزار سکتا ہے. مگر یہ بات ایک ایسے ملک
کے فرد کو سمجھانا جس ملک میں غربت, بےروزگاری اور بنیادی حقوق کا استحصال
ہوتا ہو تو یہ بھی ایک نا انصافی ہے. مگر پھر یہی سوچ ایک ایسے بیمار
معاشرے کی تشکیل دیتی ہے جس میں حقوق حاصل کرنے اور فرض ادا کرنے والے کی
پہچان مشکل ہو جاتی ہے. پھر ایسل لوگ بھی سڑکوں,گلی محلوں,بازاروں ,ہوٹلوں
پر "اللہ کی توفیق" کے نام پر مانگتے نظر آ تے ہیں جن کو خدا نے سب سے
زیادہ یعنی چلنے پھرنے, دیکھنے سونگھنے اور سب سے بڑھ کر سوچنے سمجھنے کی
توفیق دی ہے. ان جیسوں کو دیکھ کر ایک باشعور شخص کے دل میں ایک ایسی کیفیت
پیدا ہوتی ہے جو غصے اور ترس کے ملاپ سے جنم لیتی ہے. مگر اکثریت ایسی ہے
جو ان کے ہاتھوں کو پیسوں سے بھر کر سمجھتے ہیں کہ وہ خدا اور بندے دونوں
کو رازی کرلیا ہے مگر ایسے لوگ شکر نہیں لالچ کے شکنجے میں آتے ہیں پھر اس
سے ایک سوچ نمودار ہوتی ہے اور اس کا شکار ایسے بھکاریؤ کی آنے والی نسلیں
ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم دوات کے بجائے ایک ٹوکری تھما دی جاتی ہے.
ان کو حلال اور حرام کا فرق نہیں سمجھایا جاتا. اسی طرح اس ملک کو غربت کے
گڑھے میں دھکیل دیا جاتا ہے. پاکستان کا ہر ایک بچہ جانتا ہے کہ اس ملک کی
آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح لکیر سے بھی نیچے ہے. مگر شاید یہ کوئ
جاننے کو تیار نہیں کہ اس لکیر سے اوپر زیادہ تر لوگ آنا ہی نہیں چاہتے. اب
بھکاری پروفیشنل ہو چکے ہیں. اب بھکاری بڑے شہروں میں گروپ کی شکل اختیار
کر چکے ہیں. ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ بھکاری ہمارے ملک کے مڈل کلاس
خاندانوں سے زیادہ آسائش استعمال کرتے ہیں. بڑھتی آبادی کا سب سے بڑا سبب
یہ ہیں جو اولاد محض اس دھندے میں جان ڈالنے کے لیے پیدا کرتے ہیں.یہ کچھ
ایسے عناصر ہیں جو معیشت اور معاشرت دونوں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں. ہمیں
سائل اور مسائل دونوں میں فرق جاننا ہو گا. صدقہ خیرات کرنے والے ممالک میں
پاکستان نمایاں ہے مگر پھر بھی غربت بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ صدقہ مستحق کے
ہاتھ میں نہیں بلکہ خیبر سے کراچی تک کی ہر سڑک پہ نظر آنے والے بظاہر
درویش مگر در حقیقت مافیا کے ہاتھ میں جا رہا ہے. ہماری سوچ ابھی بھی غلامی
کی زنجیروں میں جکڑی نطر آتی ہے. ہمارے ملک کے معاشی, سماجی اور سیاسی
حالات لوگوں کو سڑک پہ بیٹھ کر بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن المیہ
یہ ہے کہ لوگ ااس مجبوری کو اپنی ڈھال بنانے لگ گئے ہیں. اب افسوس اس بات
کا ہے کہ اب خدائ اور خدا کہ نام پہ بھیک میں مقابلہ چل پڑا ہے. پہلے آخری
حل خدا کہ گھر پہ دستک دینا سمجھا جاتا تھا مگر اس ماڈرن کی تہہ میں لپٹے
زمانے میں اب وہ حل بھی ناپید ہوتا نطر آرہا ہے. اب خدا کی حکمت کو نہیں
خدا کہ نام کو رزق سے جوڑا جا رہا ہے. اب لوگوں کو زہنی طور پر بلیک میل
کیا جا رہا ہے. ہماری عوام صدقہ کے نام پہ اکثر دھوکا کھا جاتی ہے جس سے ان
پیشہ ور بھکاریوں کہ کاروبار کو مزید تقویت ملتی ہے. ہم آزادی کی بعد کاہلی
کی اس ساحلی پٹی پر جا کھڑے ہوئے ہیں جس کی ہوا ہمیں دیانتداری اور خوداری
کی چٹانوں کو سر کرنے سے روک رہی ہے. اب جو عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ
لگایا ہے تو امید کرتا ہوں کہ ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں گی جس سے حقدار
کو اس کا حق ملے گا اور ایسے صدقہ اور خیرات کا الگ سسٹم بنایا جاے گا جس
سے دینے والے کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا اور نہ ہی
کسے مستحق سی زیادتی ہوگی اور ایسی سوچ جو ہاتھ پھیلانے کی طرف راغب کرتی
ہے اس کی نفی ہو گی.
|