تحریر: عائشہ عارف، گجرانوالہ
کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اس قابل تھے کہ ’’زوربازو‘‘
آزادی حاصل کرسکتے تھے۔ وہ منتشر و مجموعہ افراد کہ جن کے پاس نہ تو پائی
پیسہ تھا اور نہ ہی اس وقت کی حکومت میں کوئی خاص مقام۔ جب پاکستان کا
مطالبہ کیا گیا تو یہ بات شایداس وقت کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں
تھی۔ خود مسلمان عوام اس مطالبے کی آواز سن کر بھونچکا رہ گئے۔ کسی کو شاید
امید نہیں تھی کہ یہ مطالبہ پورا ہوگا بھی یا نہیں، مگر دل میں ایک عزم تھا،
ایک چنگاری تھی جو انہیں ایک آزاد، اسلامی، فلاحی ریاست پر مجبور کررہی تھی۔
بہت کچھ کے بعد بالآخر وہ خواب پورا ہو گیا۔ منتشر قوم متحد ہو گئی اور
دیکھتے ہی دیکھتے یہ دیوانے کا خواب اور مجذوب کی بڑ ایک حقیقت پسندانہ
مطالبہ بن گئی جس کی پشت پر ایک جیتی جاگتی قوم تھی۔
یہ سب کیسے ہوا یہ ایک ایسا عظیم راز ہے جس کو جو سمجھ لے وہ گویا زندگی کے
مقصد اور آزادی کی حقیقت کو جان لے گا۔ اس راز کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے
آباواجداد کے اس عہد کو یاد کرنا ہو گا جسے آج ہماری نسل نے بھلا دیا ہے۔
اب اس عہد کی تجدید کا وقت ہے۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہم نے عہد
کیا تھا من حیث القوم اﷲ کے عطا کردہ ملک میں اسی کا دین نافذ ہوگا۔ ان
دعاؤں کو یاد کرنے کا وقت ہے جو نماز پنجگانہ میں پورے ہندوستان کی لاتعداد
مساجد میں مانگی گئیں۔ ان وعدوں کو یاد کرنا ہے جو جمعہ کے خطبوں میں اﷲ سے
کیے گئے۔ عیدین کے ان مجموں اور تقریروں کو یاد کرنے کا وقت ہے جن میں اﷲ
سے گڑگڑا کر پاکستان پانے کی طلب کے سوا کچھ نہ تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ہمارے زورے بازو کا حاصل کردہ نہیں۔ بلکہ اﷲ کا
عطیہ اور اس کی امانت ہے۔ یہ آزادی کی خوش نصیبی ہر ایک کو نہیں ملتی۔ اس
کی قدر کریں۔ کس منہ سے ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔
اﷲ نے تو پاکستان کے ذریعے ہمیں آزادی کی نعمت سے نواز دیا اب دینے کا وقت
ہمارا ہے۔ اب یہ سوچنے کا وقت ہے ہم پاکستان کو کیا دے سکتے ہیں۔ ہم فرقوں
میں بٹ گئے، پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے پھر بھی گنگناتے ہیں کہ ہم ایک ہیں۔
کیوں نہ ہم عملی طور پر ایک ہو جائیں اگر متحد ہوکر پاکستان کو پایا جا
سکتا ہے تو دوبارہ متحد ہوکر وقار کو بلندی کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔
تو کیوں نہ ہم دینی فرقہ واریت سے نکل کر محض مسلمان بن جائیں۔ ہمارے اﷲ نے
ہمیں کبھی فرقوں میں بٹنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہمیشہ کہا کہ فرقوں میں
بٹنے سے مسلمانوں کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ تو کیوں نہ مسلمانیت کے بعد سندھی،
بلوچی، پختون اور پنجابی کے امتیاز کو مٹا کر محض پاکستانی بن جائیں۔ اخوت
و بھائی چارہ جس کا درس ہمیں ہمارا مذہب اسلام دیتا ہے اسے ہر طرف عام کریں۔
اﷲ سے مانگی جانے والی دعاؤں میں ایک دعا کشمیر کی پاکستان میں سلامتی سے
شامل ہونے کی کریں۔ کیوں نہ قناعت پسندی اختیار کرتے ہوے اپنے ملک میں جو
روز گار بھی مل جائے اس پہ شکر کریں۔ پھر اﷲ تو کہتا ہے تم شکر کرو میں اور
زیادہ دوں گا۔
اپنی صلاحیتوں کو دوسرے ممالک میں جاکر آزمانے کے بجائے اپنے ملک میں رہ کے
آزماتے ہیں۔ کیوں نہ سڑکوں پر ون ویلنگ کر کے جشن آزادی منانے کے بجائے اس
بار اﷲ سے کیے گئے عہد کو پورا نہ کرنے پر توبہ و استغفار کریں۔ جن بہنوں
کی عصمتیں اس آزادی کو پانے کے لیے قربان ہوئیں اس بار آزادی پر ان کی قدر
کرتے ہوئے اسلام کی بیٹیوں کے محافظ بن جائیں۔ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے
تو چلو اس بار حکمرانوں پر یا معاشرے پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے گھروں
میں اسلام کے قوانین نافذ کرتے ہیں۔ ہم ہی معاشرہ ہیں ہر وہ انسان جو
پاکستان سے محبت کرتا ہے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت اﷲ کی آیات پر عمل کر
کے دے۔ ہماری الگ ایک پہچان ہے ہم ایسی مملکت کے رہائشی ہیں جسے دنیاوی
اغراض سے ہٹ کر ایک اﷲ کی آزادانہ عبادت کے لیے حاصل کیا گیا۔ تو فخر سے
کہیں ہم پاکستانی ہیں۔ چلو تجدید عہد کرتے ہیں اور پاکستان کی خیر طلب کرنے
کے لیے پھر سے اﷲ کے آگے گڑگڑاتے ہیں۔ جن دعاؤں سے یہ پاکستان ملا تھا وہیں
دعائیہ ہاتھ پھر سے متحد ہو جائیں تو پاکستان کو باوقار و خود مختار ملک
بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
|