تحریر: ناہید خان، کراچی
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان کے ماحول میں ایک خوشگوار ہلچل سی
محسوس ہوتی ہے۔ گلی محلے اور ہر گھر سبز ہلالی جھنڈیوں سے سجائے جاتے ہیں۔
ان ہلالی جھنڈیوں کی بہار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بچے اور بڑے سب ہی سبز
رنگ کے کپڑے زیب تن کیے پرچم کے مشابہ نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی جذبہ آزادی کا
اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ یہ جوش وخروش اور ولولہ آخر کیوں نہ ہو اور ہونا
بھی چاہیے کہ 14اگست 1947ء کو میرا پیارا وطن پاکستان وجود میں آیا۔
دنیا کا اصول ہے کہ جب کوئی قیمتی اور نادر شے حاصل کرنا ہو تو قیمت بھی
ایسی ہی چکانی پڑتی ہے۔ اس لیے میرے وطن عزیز جیسی انمول دولت حاصل کرنے کے
لیے قیمت بھی انمول چکائی گئی۔ ہزاروں جوان اس کی راہ میں قربان ہوئے۔
بوڑھے بھی کسی سے کم نہ تھے۔ ماؤں، بہنوں ا ور بیٹیوں نے بھی اپنے آنچل
قربان کیے۔ بچوں نے بھی معصومیت داؤ پر لگائی۔ تب کہیں جا کر پاکستان جیسی
عظیم نعمت حاصل ہوئی۔
ایسے وطن کے پرچم کی عظمت بھی اس قدر بلند ہے۔پرچم قوموں کی عظمتوں کے نشان
ہوا کرتے ہیں۔ اس سے الفت اور محبت بھی ایسی ہونی چاہیے جیسے یہ ماں کا
آنچل ہو۔ لیکن وقت گزرا قدریں بدلیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم اور ہماری سوچ
بھی بدلی۔ ہمارے یہاں اب مذہبی ہو یا کوئی اور قومی تہوار، سب کچھ اب بس
رسمی سا ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے ہی 14 اگست گزر جائے گی اور ساتھ میں ولولے
اور جذبے ایسے ٹھنڈے پڑجائیں گے جیسے آگ پر اگر پانی ڈالا جائے تو وہ ٹھنڈی
پڑجاتی ہے۔
عظمتوں کے نشان سبز ہلالی جھنڈیاں غلاظت میں لتھڑی اور پیروں تلے روندھی
ہوئی خاموش احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے شہر کی طرح ہمارہ دل و
دماغ بھی تعفن زدہ ہوگیا ہے۔ پچھلے ادوار میں جب پیادہ جنگیں ہوتی تھی اور
میدان میں جب تک جھنڈا بلند رہتا تھا تب تک افواج کے حوصلے بھی بلند رہتے
تھے۔ جھنڈے کو سپاہی سرنگوں نہ ہونے دیتے تھے۔ اسے بلند رکھنے کے لیے سر تک
کٹادیتے تھے۔ ایسی ہی شان ہوا کرتی ہے پرچم کی۔ گلیوں، شاہراہوں سے گزرتے
ہوے پرچم کی بے حرمتی دیکھ کر ہماری بے حسی کا پیمانہ کس حد تک بلند ہوچکا
ہے اندازہ ہوجائے گا۔ خدارا پرچم کا تقدس پامال نہ ہونے دیں ۔ یہ پرچم ہے
تو ہم ہیں۔ اس پرچم کی عظمت کے کیا کہنے کہ جب یہ شہداء کے جسد خاکی پر
لپیٹا جاتا ہے تو ان کی شان اور بڑھ جاتی ہے۔
ایسی عظمت اور حرمت والے کی ایسی توہین نہ ہونے دیں۔ آئیں ہم سب ملکر یہ
عہد کریں کہ جو غفلت ہم سے ہوگئی ہے اس کا ازالہ کریں گے۔ اسکول مدرسوں و
دیگر مقامات خاص کر گھروں میں ماں باپ اپنے بچوں میں وطن اور پرچم کا شعور
اجاگر کریں۔ پرنٹرز اور کاروباری حضرات بھی پرنٹنگ میں پرچم کی قدر و منزلت
کا خیال رکھیں۔ اگست کے بعد تمام پرچموں کو اتارنے کا اہتمام کیا جائے۔
تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہونے پائے اتنا حسین چاند تارے والا پرچم پیروں تلے
روندھے جانے کے لیے نہیں بلکہ دل میں بسانے اور آنکھوں سے لگانے کے لیے ہے۔
اپنے وطن سے پیار کریں، اپنے پرچم سے پیار کریں، اس کے تقدس کو پامال ہونے
سے بچائیں۔ پاکستان زندہ آباد
|