تحریر: علینہ فاطمہ، رحیم یار خان
آج پاکستان کی آزادی کا دن ہے۔ وہ دن جو ہمارے بزرگوں کی انتھک کوششوں اور
قربانیوں سے ہمیں نصیب ہوا۔ اس دن پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اور
برصغیر کے مسلمانوں نے سکون کا سانس لیا۔ آج اس بات کو 71 سال ہو چکے ہیں
اور آج بھی اسی جوش و خروش سے یوم آزادی منایا جاتا ہے۔
ہر سال کی یوم آزادی کے موقع پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس
میں ایک قوم ہونے کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عہد کیا جاتا ہے کہ سندھی، بلوچی،
پنجابی اور پٹھان کے فرق سے بالاتر ہو کر اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے
لیے کام کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کے یہ تمام تر باتیں اور دعوے اگلے دن ہی
پس پشت ڈال دیئے جاتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہمارے بزرگوں نے اتنا
قربانیاں کیوں دی۔ وہ کون سا جذبہ تھا وہ کون سا نظریہ تھا جس کی وجہ سے
پاکستان کو بنانے کا خیال علامہ محمد اقبال رحمہ اﷲ کے ذہن میں آیا۔ قائد
اعظم محمد علی جناح نے جس کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے
کار لائیں۔
بولنے کو تو ہم بول دیتے ہیں یہ ملک مسلمانوں کی انفرادیت کو قائم رکھنے کے
لیے بنایا گیا۔ ہمیں قائد اعظم کے چودہ نکات بھی انگلیوں پر رٹے ہوئے ہیں۔
پر کیا کسی نے سوچا اس نظریے کے پیچھے جو مقصد ہے اس پر ہم کس حد تک عمل کر
رہے ہیں۔ ہر سال یوم آزادی کے بعد ہم نے ان عہدوں کو پورا کرنے کے لیے کتنی
کوشش کی کتنی بار ہم نے ذات پات اور زبان کے فرق کو پیچھے چھوڑ کر صرف اس
ملک کے لیے کام کیا۔ ایک دوسرے سے گلے ملے ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو
سراہا۔ یقننا جواب نہیں میں ہو گا۔ ہم نے کبھی ذات پات کے فرق کو چھوڑا ہی
نہیں تو جواب ہاں میں کیسے دیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ان مواقعوں پر جب کوئی ناگہانی آفت سیلاب یا زلزلے کے
موقع پر جو یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا اگر ویسی ہی یکجہتی کا مظاہرہ ہم عام
دنوں میں بھی کریں تو ہم واقعی میں ایک اچھی قوم بن سکتے ہیں۔ اور اس کے
لیے کسی عہد کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عمل کی جس کی آج
پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے دلوں میں موجود نفرتوں کو ختم
کرنا ہو گا۔ اپنی پہچان پنجابی، بلوچی، سندھی یا پٹھان کی بجائے ایک مسلمان
اور پاکستانی کے طور پر کروانے کی ضرورت ہے۔
ضرورت ہے اس عمل سے ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کی دل آذاری سے بچنے کی۔ ملکی
ترقی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانے کھڑے ہونے کی۔ ایک دوسرے کی رائے کو
خوشدلی سے سننے کی، بجائے اس کے کہ ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیں۔ ہمیں
اپنے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب صرف عہد
کرنے سے نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے سے حاصل ہو گا۔
آﷲ پاک سے دعا ہے کہ یوم آذادی پر ہم صرف عہد کرنے کی حد تک ہی نہ رہیں
بلکہ اپنے پلک اور قوم کی ترقی کے لیے عملی طور پر بھی کچھ کر سکیِں۔ ہمیں
رنگ و نسل اور ذات پات کے فرق سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
|