قابل رشک نوجوان

تحریر: سعدیہ انعم، کراچی
’’رات کے 9 بج رہے تھے میں کلاس سے نکلی تو سوچا رکشے والے انکل جب تک آئیں گے میں ذرا واش روم سے ہوں آؤں اپنا حجاب بھی آئینے میں دیکھ کر درست کرلوں گی یہی سوچ کر میں واش روم کی طرف آگئی۔ حجاب درست کرکے دروازہ کھولنے لگی تو کیا دیکھتی ہوں دروازہ کھل ہی نہیں رہا۔مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کسی نے باہر سے دروازہ بند کردیا ہے کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ مجھے نہیں پتا تھا میں نے زور زور سے دروازہ بجانا شروع کردیا کہ شاید کوئی آواز سنے اور دروازہ کھول دے‘‘۔

یونیورسٹی میں اس طرف رات کو کم ہی کسی کا آنا ہوتا تھا مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور مدد کے لئے پکارنے لگی۔ ہینڈ بیگ اتفاق سے میرے پاس ہی تھا میں نے موبائل نکالا مگر کریڈٹ ختم تھا ۔ ذہن میں فوراََ لان لینے کا خیال آیا میں نے لان لیتے ہی اپنی ہی یونیورسٹی میں موجود اپنے کزن کو کال ملائی مگر اس کا فون بند جارہا تھا پھر دوسرے کزن کو کال ملائی وہ بھی اسی ہی یونیورسٹی میں تھا مگر بدقسمتی کہ اس نے بھی کال ریسیو نہ کی کیونکہ وہ بھی کلاس میں تھا۔ سوچا، گھر کال کروں مگر گھر کا فاصلہ ایک گھنٹے سے کم نہ تھا میں نے پھر سے زور زور سے دروازہ پیٹتے ہوئے مدد کے لئے پکارا اور جو کچھ دعائیں یاد تھی پڑھنے لگی اور ساتھ ساتھ رونے لگی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں۔ تقریباً آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا مجھے کہ اسی دوران باہر سے کسی کے دروازہ کھولنے کی آواز آئی اور دروازہ کھل گیا۔

سامنے کھڑا نوجوان حیرت سے مجھے دیکھنے لگا میں فوراً باہر نکلی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے ہمدردی کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پاس کی ایک بینچ پر بیٹھنے کو کہا اور پانی کی بوتل جو غالباً اس کی اپنی تھی مجھے پانی پینے کو دی۔ پانی کے چند گھونٹ لے کر میں نے بوتل واپس تھمائی تو اس نے پوچھا کہ آپ یہاں بند کیسے ہوئیں؟ میں نے مکمل بے خبری کے اظہار میں بس اتنا ہی کہا کہ مجھے نہیں پتا کس نے یہ حرکت کی۔اس نے میرے گھر کا نمبرلے کر گھر کال کی اور کچھ دیر بعد میرے تایا ابو مجھے لینے آئے اور وہ خود مجھے گیٹ تک ان کے حوالے کرکے گیا۔ تایا ابو نے اس کا شکریہ ادا کیا یہ واقعہ میں کبھی نہیں بھول سکتی‘‘۔

میری کولیگ نے جب مجھے اپنی آپ بیتی بتائی تو مجھے اس فرشتہ صفت نوجوان کی نیکی پر رشک آیا۔ میں اپنی کولیگ سے کہنے لگی کہ اگرایسا کوئی واقعہ اس کے برعکس ہوتا جو ہے تو پورا، میڈیا کہرام مچادیتا ہے اور مرد کی ہوس پورے ملک کے نیوز چینل نمک مرچ لگا کر چلاتے ہیں۔ دیکھو ایک مرد، کتنی بڑی نیکی کرگیا اور کسی کو علم نہیں۔ ہم مردوں کی بدنظری پر بہت شور مچاتے ہیں اور اگر ہمیں ان کی بدنظری کو دنیا کے سامنے لانا ہو اور عورت کو مظلوم و معصوم دکھانا، ہو تو، ایک فی میل صحافی کو سجا سنورا کر بے پردہ سڑک پر کھڑا کرکے خفیہ کیمرے سے مردوں کی اسے دیکھتی نظروں کی ریکارڈنگ کرکے ٹی وی چینلز کی زینت بھی بنا دیتے ہیں ۔

پھر ان مردوں کا چرچہ کیوں نہیں کرتے جو نفس رکھنے کے باوجود اپنے اچھے مرد ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، ان ماؤں کو سلام کیوں نہیں کہتے جن کی تربیت سے آج بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو اکیلی لڑکی کو موقع نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اسی دن میں نے سوچ لیا تھا کہ میں لکھوں گی کراچی یونیورسٹی کے اس فرشتہ صفت نوجوان کی اس نیکی کے بارے میں جو اس نے رات کی تاریکی میں کی ۔ میں لکھوں گی کہ اس ماں کوسلام جس نے ایسے سپوت کو جنم دیا۔ سلام ہے ایسے ماں باپ کو جن کی تربیت ان کی اولاد کو بہکنے نہیں دیتی۔ یہ ہے ہمارا اسلام یہ ہے پاکستان کی وہ امیج جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی بے شمار نوجوان ایسے ہیں جو عورت کی عزت کرنا جانتے ہیں ان کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔

اسلام نے ہمیشہ عورت کا بھلا چاہا ہے یہ اسلام ہی کے مرہون منت ہے کہ مسلمان مرد عورت کی عظمت کو سمجھتے ہیں قدر کرتے ہیں کیونکہ اسلام نے عورت کی قدر کرائی ہے۔ مجھے فخر ہے ملک کے ایسے نوجوان بھائیوں پر جو دوسروں کی عزت کو عزت دینا جانتے ہیں جو نامحرم ہوکے بھی اپنے اچھے مرد ہونے کا ثبوت دے جاتے ہیں۔ مسیحا بن کر ساری عمر کے لیے دعائیں اپنے نام کراجاتے ہیں۔ میری دعا ہے اﷲ اس نوجوان کو ہمیشہ بہترین سے نوازے اور اس نیکی کا اجر کبھی اس کے لیے ختم نہ ہو، آمین۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.