پرانے وقتوں کی بات ہے ایک سوداگر تجارت کی غرض سے ایران
جارہا تھا اس نے روانگی سے پہلے گھر کے تمام افراد سے ان کی پسندیدہ چیزوں
کے بارے میں پوچھا پھر وہ اپنے بولنے والے طوطے کے پاس آیا ۔اور پوچھا میں
ایران جارہا ہوں ۔وہاں سے تمہارے لیے کیا لے کر آؤں ۔ طوطا بولا میرے آقا
اگر وہاں آپ کو کوئی طوطا نظر آئے تو اسے میرا سلام دینا اور کہنا تم یہاں
آزاد ہو اور میں پنجرے میں قید ہوں ۔ بس میرا یہ پیغام ایرانی طاطوں کو دے
دینا۔ سوداگرایران پہنچا تو اس نے مطلوبہ سامان اوراپنے بچوں کی پسندیدہ
چیزیں خریدیں ۔وہ ایک درخت کے سائے میں آرام کررہا تھا کہ طوطوں کی آواز
سنائی دی ۔ تو اسے اپنے طوطے کی بات یاد آگئی ۔اس نے طوطوں کو مخاطب کرکے
وہ بات کہہ دی جو پنجرے میں قید طوطے نے کہی تھی ۔ سوداگر نے بات بھی مکمل
نہیں کی تھی کہ ایک طوطا تڑپ کرزمین پر گرا اور مرگیا۔یہ دیکھ کر سوداگر
پریشان ہوا کہ میری وجہ سے ایک زندہ سلامت طوطا مرگیا ۔ غمزدہ حالت میں وہ
اپنے گھر پہنچا ۔طوطے نے پوچھا میرے آقا کسی ایرانی طوطے کو میرا پیغام دیا
تھا ۔سوداگر نے افسردہ لہجے میں کہا ہاں تمہارا پیغام دیا تھالیکن میری بات
سن کر ایک طوطا گرا اور تڑپ کر مرگیا ۔ جس پر مجھے بے حد دکھ ہوا۔ پنجرے
میں قید طوطے نے سوداگر کی بات سنی تو وہ بھی تڑپنے لگااور مر گیا ۔ سوداگر
بہت پریشان ہوا کہ میری وجہ سے دو طوطے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس نے
پنجرے کا دروازے کھولا اور مردہ طوطے کو نکال کر پھینک دیا ۔ طوطا جیسے ہی
سوداگر کے ہاتھ سے نکلا تو وہ ہوامیں اڑنے لگا ۔ سوداگر کو بہت غصے آیا۔
طوطے مسکرا کے بولا میرے آقا وہ ایرانی طوطا مرا نہیں تھا بلکہ اس نے مجھے
پیغام دیا تھا کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے جان پر کھیلنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ
میں نے بھی اس کی نقل کی اور اب آزاد ہوں۔ یہ کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا
کہ آزادی کی نعمت صرف غلام قومیں ہی جانتی ہیں ۔آزادی کی قیمت پوچھنی ہو تو
وادی کشمیر کے رہنے والوں سے پوچھو جو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں
اور بھارتی فوج چھرانما بندوقوں سے ان کے چہروں کو اس طرح چھلنی کرتی ہے کہ
آنکھوں کی بینائی ضائع ہوجاتی ۔ آزادی مانگتے ہوئے سترسال ہوچکے ۔لاکھوں
کشمیری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاکھوں کو بھارتی قید میں اذیتوں کا
نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔ وہ جنت نظیر وادی جس کے حسن و جمال کے چرچے پوری
دنیا میں سنے اور سنائے جاتے ہیں بھارتی فوج کے ناپاک قدموں سے دوزخ کا روپ
دھار چکی ۔روزانہ شہیدوں کے جنازے اٹھتے اور روزانہ کشمیر ی مائیں اپنے لخت
جگروں کو آنسووں کا خراج پیش کرکے قبروں میں اتار تی ہیں ۔اقوام متحدہ میں
قرار داد منظور ہونے کے باوجود استصواب رائے کی نوبت نہیں آرہی ۔ وہ
پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں لیکن آگ اور خون کی ایک دیوار راستے میں حائل
ہے ۔ نہ جانے یہ دیوار کب مسمار ہوگی ۔ آزادی کی قیمت پوچھنی ہو تو
فلسطینوں سے پوچھیں جن کی سرزمین پر سپرطاقتوں نے یہودی آباد کردیئے ۔
یہودیوں نے سرزمین فلسطین کے اصل مالکوں کو ہی بے دخل کردیا ۔ بیت المقدس
کے تقدس کو روزانہ پامال کیا جاتاہے ‘ روزانہ فلسطینی مائیں ‘ بہنیں اور
بیٹیاں‘ یہودی فوجیوں کے سامنے سینہ سپر ہوتی اور جانیں قربان کرتی ہیں ۔
آزادی پھر بھی دور دور تک نظر آرہی ہے ۔ کئی نسلیں آزادی مانگتے مانگتے
قبروں میں اتر چکی ہیں۔ نہ جانے اور کتنی نسلوں کو حصول آزادی کے لیے
قربانی دینا پڑے گی ۔ ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں جنہیں قائداعظم محمد علی
جناح کی عظیم جدوجہد کی بدولت 14 اگست 1947ء کی صبح آزادی حاصل ہوئی ۔
ہمارے آباؤ اجداد اور بزرگوں نے ایک آزاد وطن "پاکستان " تک پہنچنے کے لیے
لاکھوں کی تعداد میں جانی و مالی قربانیاں دیں ۔ ہماری ماؤں بہنوں کی عصمت
دری کی گئی ‘ بچوں کو والدین کے سامنے تہہ تیغ کیاگیا ۔گھر بار اجڑ گئے ‘
سازوسامان بھی گیا ‘ ہجرت کرنے والے صرف ایک تہائی مسلمان پاکستان پہنچنے
میں کامیاب ہوئے وگرنہ کتنی ہی کٹی پٹی نعشوں سے بھری ٹرینیں بھارت سے
لاہور پہنچتی رہیں ۔یہ آزادی کی قیمت تھی ۔جس آزاد وطن میں ہم آزاد اور
خودمختار زندگی بسر کررہے ہیں ‘ یہ سب اﷲ تعالی کے فضل و کرم کے بعد ہمارے
قائدین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ابتداء سے لے کر
آج تک ایک بار پھر ہمیں غلام بنانے کی سازشیں سر اٹھارہی ہیں ۔ہم ایک قوم
بن کے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے فرقوں‘ قوموں ‘ قبیلوں اور ذات
برادری میں بٹتے جارہے ہیں۔ 14اگست 1947ء کو ہمیں اس لیے آزادی میسر آئی
تھی کہ ہم ایک قوم تھے لیکن آج ہم پنجابی ‘ پٹھان ‘ بلوچ ‘ سندھی کاروپ
دھار چکے ہیں ۔معمولی سی بات پر مرنے اور مارنے پر تل جاتے ہیں۔ ہمارے اندر
تحمل ‘برداشت اور اتحاد ختم ہوتا جارہا ہے ۔ بھارت تو ہمارا ازلی دشمن تھا
اور ہے ۔ امریکہی بھی ہمیں دنیا کے نقشے سے مٹانے کے منصوبے بنا چکا ۔
سیاسی قائدین جنہوں نے ہمیں ایک قوم بنانا ہے وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے
دست و گریباں ہیں ‘ میڈیا جس نے ہمیں ایک قوم بنانا تھا وہ اپنے غیر ملکی
آقاؤں کے اشارے پر ناچتے ہوئے انتشار اور اختلافات کی آگ کو مزید بھڑکا رہا
ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم اربوں ڈالر کے مقروض اور پانی کی
بدترین قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔نہ ہماری زراعت محفوظ ہے نہ صنعت ‘ تجارت
بھی زوال پذیر ہے ۔درآمداور برآمد کا توازن حد سے بگڑتا جارہا ہے۔ ہم آنے
والی نسلوں کو خوشحال پاکستان دینے کی بجائے پانی کی قلت ‘ بجلی اور گیس کی
بدترین لوڈشیڈنگ والا مقروض پاکستان دے کر جارہے ہیں۔ ہماری نظر میں آزادی
کی کوئی قیمت نہیں ۔ہم ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے لگے ہیں ۔
ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ مشرقی ‘ مغربی اور جنوبی سرحدوں پر دشمن ہمیں
کھاجانے والی نظروں سے گھور رہاہے ۔71ویں یو م آزادی کے موقع پر میں اپنے
ہم وطنوں کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خدارا آزادی کی قدر کریں اور اپنی
ذات ‘ برادری ‘ قبیلے کو فراموش کرکے صرف اور صرف پاکستانی بن جائیں ۔ہم نہ
تو پنجابی ہیں نہ پٹھان ‘ہم نہ سندھی اور نہ بلوچی ۔ہم صرف اور صرف
پاکستانی ہیں ۔دنیا میں ہر جگہ ہماری یہی پہچان ہونی چاہیئے ۔ اگر ہم ایک
قوم نہ بنے تو ہماری داستان تک بھی نہ رہے گی داستانوں میں ......ہمارا اور
ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹوں کا حال بھی وہی ہوگا جو آج کشمیری اور
فلسطینیوں کا ہورہا ہے ۔ |