شہید ِکربلا کی یاد

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم

یکے ازنگارشات……ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
ترتیب و پیش کش:ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری‘ کراچی

(ہر سال جب ماہ محرم الحرام آتا ہے تو)شہید ِکربلا کادن منایاجاتاہے……ضرور منایا جانا چاہیے…… جس نے حق کی خاطر جان عزیز قربان کی ہو‘ ا س کی یادکیوں نہ منائی جائے …… وہ سر گر وہِ احرار تھا ، اس کے دم سے ایمان کی رونق ہے ، وہ شہید ہے ، وہ جوانانِ جنت کا سردار ہے ، وہ دوشِ محمد ﷺکا سوار ہے ،وہ زندہ جاوید ہے ، وہ جنت کی بے کراں نعمتوں سے لطف اند وز ہو رہا ہے ‘ اس کے لطف وسر ور کا کون اند ازہ کرسکتاہے …… قیامت کے دن اُن کا رب اُن کو اتنا دے گا کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ……
(مگر)ذرا سوچو تو سہی کہ ایسے شہید ِناز کی یا د کس طرح منائی جاتی ہے…… کیا جو کچھ ہم کرتے ہیں اس کے شایانِ شان ہے !……عقل سلیم جواب دے ؟
جو اُس نے کیا‘ہم وہ نہیں کرتے اور جو اُس نے نہ کیا وہ ہم کرتے ہیں…… یہ کیسی محبت ہے ، یہ کیسا عشق ہے ، یہ کیسی وارفتگی ہے، یہ کیسی شیفتگی ہے ، یہ کیسی جاں نثاری ہے ، یہ کیسی فدا کا ری ہے ، یہ کیسی اطاعت شعاری ہے ، یہ کیسی وفادار ی ہے ؟
خداراکچھ تو بتاؤ !
دل میں ایک بات رہ رہ کرآتی ہے ،آپ کو بھی بتاؤں …… انسان ابتلا ء سے گزرکر معراج ِکمال پر پہنچتاہے لیکن معراج ِکمال پر پہنچنے کے بعد کوئی شخص اس کے دورِ ابتلا ء کی یاد نہیں مناتا بلکہ اس کو جونعمت ملی ہے اس پر خدا کا شکر اداکیا جاتاہے …… سرکار دوعالم ﷺ کا یوم معراج منایا جاتاہے‘ یوم ولادت منایا جاتا ہے …… دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن‘ طائف کے بازاروں میں اس جان حزیں پر جو کچھ گز ری تھی اور جن کے متعلق اس نے فرمایا تھا کہ زندگی کی سب سے کٹھن گھڑی گزری تھی ……ہاں اس کی یاد منا کر کوئی سینہ کو بی نہیں کرتا …… وہ ایک آزمائش تھی ، آنی ووقتی …… اب عیشِ جاودانی ہے اس پر خدا کا شکر ادا کر تے ہیں اور آپ کے محامد و محا سن بیان کرتے ہیں …… یہی شہیدِ کر بلا کی یاد میں کیا جانا چاہیے …… ہاں اس پر ضرور ماتم کیاجانا چاہیے کہ جو متاعِ گر اں مایہ خدا نے ہم کو دی تھی اس کوخودہم نے اپنے ہاتھوں کر بلا میں لٹا دیا ، لیکن یہ کا م وہ کرے جو حسینی لشکر میں نہ تھا ، ہاں اس کو پچھتانا چاہیے اور وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو ایک پرلے درجے کاگنا ہگار و سیہ کار احساسِ ندامت کے بعد کیا کرتا ہے ،لیکن جو حسینی لشکر کے ساتھ تھے ان کو(حضرت امام) حسین رضی اﷲ عنہ کی بے پنا ہ ا ستقامت واستقلا ل پر فخر ہے …… دشمنوں نے شہید وپا مال کیا لیکن شہید ِعشق کو کوئی پامال نہیں کرسکتا اور نہ وہ شکست کھا سکتا ہے …… فتح ونصر ت اس کے قد م چومتی ہے اور تاج ِکامر انی اس کے فرقِ اقد س پر رکھا جاتا ہے ؂
آناں کہ غم تو برگزید ہمہ
در کوئے شہادت آرمیدند ہمہ
در معرکہ دو کون فتح از عشق است
با آں کہ سپاہِ او شہیدند ہمہ
ذراغور کر و !
میدان ِکر بلا میں اس شہید ِوفاکی شہا دت کے بعد جو کچھ ہوا ، وہ‘ وہ نہ تھا جو پیش کیا جاتاہے اور نہ وہ‘ وہ ہوسکتا ہے …… ذاکر ین اور مر ثیہ نگا روں نے جس بے صبر ی کو اہل بیت سے منسو ب کیا ہے وہ اداشناسان ِخاندانِ نبوت کے لیے سخت حیران کن ہے…… وہ ہر گز اُن کی شایا نِ شان نہیں …… یہ تہمت ِبے تابی ہے ……اس میں شک نہیں کہ جو کچھ ہوا وہ نہایت المناک و غمنا ک تھا اور اس المناکی پردل خون کے آنسوروتاہے ، لیکن اس جاں کا ہ حادثہ کا جو ردِ عمل بتایا جاتاہے اس نے اہل ِبیت کی سیرتوں کو بے نور بنا دیا ہے …… عظمت اُن کی مظلومیت دکھا نے میں نہیں بلکہ یہ دکھانے میں ہے کہ جس گھرانے کو اپنوں نے لوٹا اور پامال کیا اس نے کس صبر و استقلا ل اور ہمت وحوصلے کا مظاہر ہ فرمایا ۔
مر ثیہ نگا رو ں نے مرثیے لکھے اور خوب نام پایا‘ لیکن انہوں نے انحطا ط وغلامی کے جس دور میں آنکھیں کھولیں اور اپنی عورتوں اور مردوں میں بے صبر ی کے جو جو مظاہرے دیکھے وہ سب ایک ایک کرکے اہل بیت کی پاک سیرتوں پر چسپاں کر دیے اور یہ نہ سوچا کہ وہ یہ کیا ظلم کر رہے ہیں …… مر ثیوں میں جس تہذیب کی تصویر کھینچی گئی ہے وہ ہر گز حجا زی نہیں‘ خالص ہند ی ہے اور وہ بھی اس علا قے سے متعلق ہے جہاں کے مَردوں میں مردانہ پن سے زیادہ زنانہ پن ہے اور عورتوں کا تو کہنا ہی کیا !
اﷲ اﷲ! جو عز م وہمت، صبر واستقلال کے روشن مینا رتھے ان کی روشنی کو یوں پا مال کیا گیا اور غمز دوں اور مصیبت کے ماروں کو اس طرح بے آسر اکر دیا گیا کہ وہ اس مینا رۂ نو ر سے روشنی حاصل کرنا چاہیں تو مایوس ہوکے ایک ایک کا منہ تکیں اور بز بان حال کہیں ؂
ہائے کیا کروں ، کہاں جاؤں !
اے ذاکر و !
اے مرثیہ نگارو !
یہ ظلم تو نہ کر و …… اورہاں
اے نامو سِ اہل بیت کے محا فظو !
یہ غضب تو نہ کر و‘ ہوش کی خبر لو …… تم محبت میں متاع محبت بر باد کیے دے رہے ہو……محبت یہ نہیں کہ اہل بیت کو دیارِہند کی عام عورتوں کی سطح پر لا کھڑا کر دو……نہیں‘ ہر گز نہیں……وہ بلند تھے ، بہت بلند ، اُن کی بلند یوں کو قائم رکھو !
بین و ماتم سے اُن کو کیا سرو کا ر!……چودہ سو بر س گزرجانے پر بھی ان کے غلا موں کی یہ ادائیں نہیں …… کم از کم غلاموں کو دیکھ دیکھ کر آقا اور آقا زادوں کو پہچان لو !
وہ سرکا ر دو عالم ﷺ کی آنکھ کے تارے تھے ، اُن کے سامنے آپ(ﷺ) کا اسوۂ حسنہ تھا ، اُن کے سامنے آپ (ﷺ)کا پیکر استقامت تھا‘ ہاں اُس گھر کا بچہ بچہ کو ۂ استقامت تھا ، اُن پر بے تابی کی تہمت نہ لگا ؤ، ان کو بے صبر ا نہ کہو ، وہ جان ِصبر ہیں ، وہ روحِ عزیمت ہیں،بے شک ؂
سر داد نہ داد دست ، در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین

Dr Iqbal Ahmed Akhtar Ul Qadri
About the Author: Dr Iqbal Ahmed Akhtar Ul Qadri Read More Articles by Dr Iqbal Ahmed Akhtar Ul Qadri: 30 Articles with 42457 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.