مرض عشق

عائشہ طارق
دوسرے بڑے مرض کی طرح عشق بھی ایک خطرناک مرض ہے۔ جس نے ہماری نوجوان نسل کو کسی کام نہیں چھوڑا۔ اس کو نکما کر دیا ہے۔ اس کو لوو سکنیس (love sickness) کہتے ہیں۔ اس کو عام طور پر امراض قلب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مرض دوسرے دیگر امراض کے برعکس اس لیے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کہ بعض اوقات تو اس کے مریض کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہے اور اگر اس کو علم ہو بھی جاتا ہے تو وہ اپنی اس حالت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں عشق کو مرض نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس کو انجوائے منٹ کے طور پر لیا ہے۔ اور کچھ لوگ اس میں ملنے والی تکالیف کو فلمی مناظرہ کی طرح انجائے کرتے ہیں۔

"لیکن عشق وہ مرض ہے ۔ جس کے مریض کو یہ معاشرہ ، اس کا میڈیا، اس کا لڑیچر میٹھی نیند سلا کر برسوں تھپکتے رہتے ہیں کیونکہ جو چیزیں رواج میں آ جائیں ان کا غلط ہونا ذہنوں سے نکل جاتا ہے۔"
ہمارا اُردو لڑیچر دیکھے تو اس میں عشق اور محبت کو پھول، نعمت اور پتا نہیں کیا کیا قرار دیا گیا ہے۔ ہماری فلموں اور ڈراموں کی سٹوریز کی بیس بھی اسی عشق پر تو ہوتی ہے۔ جس کو نوجوان نسل مزے سے دیکھتی اور اس کو آئیڈیا لیز کرتی ہے ۔ ویسے تو عشق کو مرض سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس عشق کو مرض مان لیتا ہے اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے ہاتھ پاؤں مرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو یہ کہہ کر اس کی کوشش پر پانی پھیر دیا جاتا ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ مرض لاعلاج ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
" اللہ نے اتاری ہے ہر مرض کی دوا۔۔۔ جو اسے جانتا ہے وہ اسے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا ہے وہ نہیں جانتا ۔۔۔"

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مرض کی طرح مرض عشق کی بھی دوا۔ اور اس دوا کو جاننے کی کوشش خود انسان کو ہی کرنی ہوتی ہے۔ مرض عشق بہت موڈی مرض ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی اس مرض میں مبتلا ہے تو یاد رکھے اس کی شفا ہے لیکن اس شفا کے لیے پہلے آپ کو اپنے راستے ٹھیک کرنے ہوں گے۔ وہ مشکل راہیں جن میں کرب ہے، پکڑے جانے کا خوف ہے ان کو ترک کرنا ہوگا۔

ابن قیم الجوزیہ اپنی کتاب دوائے شافی میں اس مرض عشق کا علاج بیان کرتے ہیں کہ علاج کے لئے ضروری ہے کہ مریض کو اپنے مرض کا ادراک بھی ہو۔ وہ خود صحت یاب ہونا چاہے‘ تب ہی وہ صحت یاب ہو سکتا ہے.

اسی طرح مرض عشق میں مبتلا مریض کو اپنے مرض کا علاج کرنے کے لیے اس ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔

انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کی محبت اس کو وہاں لا کھڑا کر دیتی ہے جہاں اس کو سمجھ ہی آتا وہ کیا کرے۔ نہ تو وہ آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی وہ پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ اس سچویشن میں اس کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔ ایسے میں انسان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں اول کے وہ کسی غلط رہ کا انتخاب کر کے اپنی منزل پانے کی کوشش کرے یا دوم یہ کہ اس موڈی مرض کو کنٹرول کرکے اس سے چھٹکارا پا لے۔

مریض عشق کو لگتا ہے کہ اس کا دل اس کا نہیں رہا ۔ اس کا دل ہر وقت بے چین رہتا ہے مضطرب رہتا ہے۔ مریض عشق سوچتا ہے کہ اس مرض کو ختم کرنے کے لیے، اپنے دل کا مالک واپس بننے کے لیے اس کی محبت کو دل سے نکالنا ہوگا یا اس سے نفرت کرنی ہوگی۔ وہ اپنی ساری طاقت اس شخص سے نفرت کرنے میں لگا دیتا ہے مگر ناکام ہو جاتا ہے۔

بن قیم الجوزیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کسی کی محبت کو ختم کرنے کے لیے اس سے نفرت کرنا ضروری نہیں ہے ۔ مرض عشق کے علاج کے دو طریقے ہیں۔
پہلا طریقہ ہے "غضِ بصر ۔‘‘

’’ اپنی نگاہ کو پست رکھو، نگاہ کی حفاظت کرو۔ اس کو نہ دیکھو جس کی وجہ سے دل کھویا ہے۔‘‘
اور نگاہ کو پست رکھنے کے دس فائدے ہیں جو وہ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں۔
پہلا۔ یہ الله کا حکم ہے ‘ اور جو بھی انسان فلاح پاتا ہے ‘ وہ حکمِ الہٰی مان کر ہی فلاح پاتا ہے‘ اور جو ناکام ہوتا ہے ‘ وہ حکم نہ ماننے کی وجہ سے ناکام ہو تا ہے۔‘‘

’’دوسرا فائدہ۔اس کی نظر جو زہر آلود تیر تمہارے دل تک پہنچا کر تمہارا دل ہلاک کرتی ہے ‘ آنکھ کی حفاظت سے وہ تیر تمہارے دل تک نہیں پہنچے گا۔‘‘

’’سوئم،نظر کی حفاظت سے دل میں پوری توجہ سے الله کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے ‘ ورنہ جن لوگوں کی نگاہ آزاد اور آوارہ رہتی ہے ‘ ان کا دل منتشر رہتا ہے۔ آزاد نگاہی بندے اور الله کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔‘‘

’’چہارم ۔ آنکھ کی حفاظت سے دل مضبوط اور پر سکون رہتا ہے اور آزاد نگاہی یعنی ہر غلط چیز یا شخص کو دیکھ لینے سے دل بے چین رہتا ہے۔‘‘

’’پنجم۔ نگاہ پست رکھنے سے دل میں’’نور‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ سورۃنور میں الله نے غضِ بصر کی آیت کے بعد ہی آیتِ نور پیش کی ؟ کیونکہ دل میں نور نظروں کی حفاظت سے داخل ہوتا ہے ‘ اور جب دل نورانی ہو جائے تو ہر طرف سے خیر اور برکت اس انسان کی طرف دوڑتی ہے۔ اور جن کے دل اندھیر ہوں‘ ان کو شر اور تکالیف کے بادل گھیرے رکھتے ہیں۔‘‘

’’ششم۔ تم الله کا اصول جانتے ہو۔ اس کے لئے جو چھوڑو گے ‘ وہ اس سے بہتر عطا کرے گا۔ تم’’ نگاہ‘‘ چھوڑو‘ وہ بدلے میں ’’نگاہ ‘‘عطا کرے گا۔ وہ تمہیں بصیرت دے گا‘ فہم و فراست کی نگاہ عطا کرے گا‘ اور تمہاری فراست کبھی خطا نہیں ہو گی۔ مومن اسی نگاہ کی وجہ سے ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا۔‘‘

’’ساتویں چیز۔ آزاد نگاہی سے انسان ذلیل ہوتا ہے ‘ اپنے نفس کے قدموں میں خود کو رول کر بے توقیر کر دیتا ہے ‘ مگر جونگاہ کی حفاظت کرتا ہے ‘ الله اس کو عزت دیتا ہے ،لوگوں میں بھی، فرشتوں میں بھی۔‘‘

’’آٹھویں بات۔ نگاہ کے ذریعے شیطان اتنی تیزی سے دل میں جا پہنچتا ہے جتنی تیزی سے کسی خالی جگہ میں خواہشات بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ وہ امیدیں دلاتا ہے‘ گناہوں کی توجیہات پیش کرتا ہے ‘ اور انسان گناہ کی آگ میں یوں جلتا ہے جیسے کسی بکری کو تنور میں ڈال کر بھونا جائے۔ اسی لئے شہوت پرستوں کو قیامت کے دن آگ کے تنوروں میں ڈالا جائے گا۔‘‘

’’نویں چیز. غضِ بصر سے دل کو قرآن پہ غور و فکرکرنے کا موقع ملتا ہے۔ ورنہ جن کی نگاہیں آوارہ ہوں‘ ان کے دل اتنے پھنسے اور الجھے ہوتے ہیں کہ یہ فراغت ان کا مقدر نہیں بن سکتی۔‘‘

’’آخری یعنی دسویں چیز! انسان کے دل اور آنکھ کے درمیان ایک سوراخ ہے ‘ ایک راستہ ہے۔ جس کا م میں آنکھ مشغول ‘ اسی میں دل مشغول ہوتا ہے۔ ایک کی اصلاح سے دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے‘ایک کے فساد سے دوسرے کا فساد ہوتا ہے۔ اس لئے اپنی نگاہ کو صاف رکھو‘ اس شخص کو نہ دیکھو جس کی طرف دل ہمکتا ہے ‘ کیونکہ یہ تمہارے لئے حرام ہے۔اگر حلال ہوتا تو ٹھیک تھا‘ لیکن حلال نہیں ہے۔ سو جب تم اپنی نگاہ کے مالک بن جاؤ گے تو دل کو بھی واپس حاصل کر لو گے۔ یہ پہلا طریقہ ہے ۔‘‘

مرضِ عشق کی مدافعت کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ....‘کہ اپنے دل کو کسی اور طرف مصروف کرو تاکہ وہ عشق والے راستے سے رکے ۔ یا تو کسی خوف کے ذریعے ‘ یا پھر...یا پھر محبت کے ذریعے۔‘‘

محبت کا علاج محبت سے بھی کیا جاسکتا ہے۔جیسے ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے ‘ جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ‘ ویسے ہی عشق کو صرف عشق کاٹتا ہے ‘ محبت کا علاج محبت سے کیا جاتا ہے ۔ جب تک تمہارے دل کے سامنے کوئی بڑی محبت نہیں آئے گی ‘ اس شخص کی محبت سے بڑی محبت ‘ تب تک وہ شفا یاب نہیں ہو گا۔‘‘

محبت جبراً کوئی کسی سے نہیں کر سکتا۔ یہ تو قسمت سے ملتی ہے۔ ہو گئی تو ہو گئی ‘ نہ ہوئی تونہ ہوئی ‘ مگر سب سے پہلے انسان کو اپنے دل کو مصروف کرنا ہو گا۔ اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ دل کے کو مصروف رکھنے کےلئے انسان کو آنکھوں کو کسی کام میں مصروف کرنا ہوگا۔

ہم انسان بھی بہت عجیب ہیں۔ جس سے سارے تعلقات توڑنا چاہتے ہیں سارا دن اسی کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ اس سے دور کیسے جائے۔ اس طرح تو آپ کبھی بھی اپنے مرض سے نہیں نکل پائے گئے۔ پرانے سے پرانے مرض کے علاج کا انحصار بھی آپ کی دوا پر ہوتا ہے کہ آپ اس کے علاج کے لیے کتنے محلض ہو۔

نمرہ احمد اپنے ناول نمل میں بیان کرتی ہے کہ۔
"وہ شخص جس کی وجہ سے دل ڈسٹرب ہے ‘ اس سے اگر کوئی حلال تعلق نہیں ہے تو اسے اپنی زندگی سے نکال باہر پھینکنا ۔ سارے تعلق ‘ سارے روابط کاٹ دینے چاہئیں۔ پھر اس کی یادوں‘ اس کی تصویروں ‘ اس کے میسیجز ‘ ای میلز‘ کسی کو بھی دوبارہ نہ پڑھیں۔ یوں نظر محفوظ ہو گی تو دل بھی محفوظ ہو گا."

ہمارے اردگرد کا ماحول اور موسم بدلتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم بے موسمی بیماریوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ مرض عشق بھی ایک ایسی ہی بے موسمی بیماری ہے۔ جس نے ہماری نوجوان نسل کو بے کار کر دیا ہے۔ اس بیماری کو لاعلاج قرار دینے والوں کو جان لینا چاہیے کہ اس کا علاج ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کو اس کا علاج کر کے اپنے دل کے آپ مالک بنا جانا چاہیے۔ اور سب سے بڑی محبت اللہ کی محبت ہے اس کی محبت سے دنیا کی فضول اور بے کار محبتوں کا خاتمہ کر لینا چاہیے۔

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.