محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ رب العزت نے ہمیں جو بارہ اسلامی مہ عطا کئیے ہیں
وہ سب کے سب ہمارے ایمان کو تازگی بخشنے کے لئے کسی نہ کسی واقعے کی یاد
دلاتے ہیں جس سے نہ صرف ہمیں اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہوتا ہے بلکہ ہمارا
اپنے خالق کائنات اور اس کے بھیجے گئے انبیأ کرام پر یقین پختہ ہوتا ہے اور
ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے انبیأ کرام , صاحبہ کرام , اولیأ اللہ
اور بزرگان دین نے کتنی مشکلوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا لیکن اپنے دین
پر کبھی آ نچ نہ آ نے دی اب آپ سب سے پہلے اسلامی مہینے محرم الحرام کو ہی
لے لیجئے کہ جو ہمیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد دلاتا ہے
کہ دو جہاں کے سردار تاجدار انبیأ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
نواسے نے اپنے نانا کے دین کی حفاظت کی خاطر اپنا پورا کنبہ اللہ کی رہ میں
قربان کردیا لیکن یزید کی بیعت نہ کرکے رہتی دنیا تک یہ بات ثابت کردی کہ
اللہ اور اس کے حبیب کریم کا دین سچا ہے اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس
دین کی اور ناموس رسالت کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے اس ہی طرح جب ہم بارہ
مہینوں کو تفصیل سے پڑھتے ہوئے آخری مہینے تک پہنچتے ہیں تو یہ ذی الحج کا
مہینہ ہے جس میں عید الاضہی یعنی عید قربان منائی جاتی ہے جو ایثار وقربانی
کا بہت بڑا تحوار ہے عید قربان ہمیں اللہ رب العزت کے بہت ہی پیارے اور
برگزیدہ بیغمبر حضرت ابرہیم علیہ السلام کی سنت یاد دلاتی ہے کہ جب آپ نے
خواب میں دیکھا کہ اللہ رب العزت نے آ پ سے آ پ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ
السلام کی قربانی مانگی اور وہ بھی ذبح کرکے اور پہر آ پ علیہ السلام نے یہ
خواب اپنی ذوجہ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو ماں ہوں لیکن وہ
خالق مجھ جیسی کئی ماؤں سے زیادہ چہنے والا ہے اسکی دی ہوئی چیز کو اس کے
حکم پر قربان کرنے میں دیر نہیں کرنی چہئے آ پ فوری طور پر اپنے اس خواب کی
تعمیل کر لیجئے .
بس آ پ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو بلاکر کہا کہ بیٹے ایک تیز دھاروالی
چھری اور ایک رسی لیکر میرے ساتھ چلو آ پ علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت
اسماعیل علیہ السلام کو لیکر منا کی پہاڑی پر چڑھ جاتے ہیں وہاں پہنچ کر آ
پ علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان
کیا اور فرمایا کہ بیٹے اب تم کیا کہتے ہو میں تمہاری مرضی معلوم کرنا چہتا
ہوں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا ابا جان آ پ کو مجھ سے اجازت
لینے کی ضرورت نہیں ہے آ پ اپنے خواب کی تعمیل کیجئے انشأاللہ آ پ مجھے
صابر پائیں گے بس پہر کیا حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو لٹایا
تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا رک جائیں ابا جان آ پ اپنی اور
میری آنکھوں پر پٹی باندھ دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آ پ مجھے ذبح کرتے ہوئے
دیکھ نہ سکیں اور آ پ اپنے خواب کی تعمیل کرتے ہوئے رک جائیں اور ایسا نہ
ہو کہ میں بھی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ سکوں گویا دونوں نے اپنی
اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی اس کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تیز
دھار والی چھری اپنے فرزند کےگلے میں پہیرنی شروع کی لیکن چھری چلنے کا نام
نہیں لے رہی تھی تو آ پ علیہ السلام نے اپنی پوری قوت سے چھری چلائی لیکن
چھری پہر بھی نہیں چلی تو غصے میں آ پ علیہ السلام نے کہا چھری چل کیوں
نہیں رہی تو چھری نے عرض کیا خلیل کہ رہا ہے چھری چل اور جلیل کہ رہا ہے کہ
خبردار اگر تو نے اسماعیل کے گردن کا ایک بال بھی کاٹا پہر آ پ علیہ السلام
نے کھڑی چھری سے یعنی نوک سے گردن پر وار کیا اور گردن سے خون کے پہوارے
پوٹ پڑے آ پ علیہ السلام خوش ہوگئے یعنی خواب پایائہ تکمیل کو پہنچ گیا آ پ
علیہ السلام نے اطمنان کا سانس لیا اور یوں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے آنکھ
سے جب پٹی ہٹائی تو کیا دیکھتےہیں کہ فرش پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
جگھ ایک دنبہ ذبح ہوگیا تھا آ پ علیہ السلام نے دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ
السلام حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قریب ہی کھڑے ہیں تو بے اختیار آ
پ کے منہ سے نکلا اللہ اکبر اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا اشھد ان
لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ تب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا
لبیک الہم لبیک اللہ رب العزت نے فرمایا اے ابرہیم (علیہ السلام) تیری
قربانی مجھ تک پہنچ گئی اب قیامت تک آ نے والے میرے بندے تیری سنت کی پیروی
کرتے ہوئے جانور ذبح کرکے اس کو زندہ رکھیں گے تمہاری , تمہارے بیٹے کی اور
جبرائیل کی زباں سے ادا ہونے والے الفاظ رہتی دنیا تک لوگوں کی زبان پر
رہیں گے اسلئے ہم جب بھی قربانی کا جانور ذبح کرتے ہیں تو پہلے اللہ اکبر
کہتے ہیں اور پہر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہیں اور اس ہی لئے اللہ رب العزت
نے قربانی کو حج کا ایک حصہ بنادیا اسے کہتے ہیں اللہ رب العزت کی رضا کی
خاطر اپنے دین کی خاطر اپنامال اپنی دولت اور اپنا آپ تک قربان کردینا اللہ
رب العزت کی اتنی سخت آ زمائش اور اتنا کڑا امتحان وہ بھی اپنے برگزیدہ
نبیوں پر اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت صرف اپنے خاص
بندوں پر ہی ایسی آزمائش ڈالتا ہے کیوں کہ اسے علم ہوتا ہے کہ یہ بندہ میرے
حکم کی تعمیل کرنے میں پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے .
محترم پڑھنے والوں ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اللہ رب العزت کے یہ محبوب بندے
یہ انبیأکرام اور ان کی نسلوں پر جتنی آ زمائش اور امتحانات اللہ رب العزت
کی طرف سے آ ئیں اور وہ اپنے ان امتحانات میں سرخرو ہوکر اپنے لئیے جنت میں
گھر بنانے میں کامیاب ہوئے اگر آ ج کے دور میں ہم پر ایسے امتحانات آ جائیں
تو کیا ہم ان مشکلات کا سامنا کرسکیں گے کیا اللہ رب العزت کے حکم پر اپنی
جانوں کے نذرانے پیش کرسکتے ہیں اس کے لئے ہمیں صرف مسلمان نہیں بلکہ سچا
عاشق رسول اور سچامسلمان ہونا پڑے گا کیوں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک
میں تمہیں اپنی جان , مال اور اولاد سب سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اس دور
میں ان مشکلات کا ذکر تو بہت کم ملتا ہے لیکن ہمیں اپنے اندر ایک ایسا جذبہ
بیدار رکھنا ہوگا کہ ہمارے دین پر کبھی کوئی انگلی اٹھانے کی کوشش کرے تو
ہمیں ممتاز قادری اور غازی علم دین شہید بننے میں دیر نہ لگے .
عید قربان کی تیاریاں عروج پر ہیں کم از کم ایسے مواقع پر ہمیں ان لوگوں کا
خاص خیال رکھنا چہئے جو اس ملک میں غریبوں , مسکینوں اور یتیموں کی زندگی
بسر کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتے ہیں جن کو پورا سال گوشت کھانا نصیب نہیں
ہوتا اور پورا سال اس دن کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اگر ایسے لوگوں کا
ہم نے خیال رکھا تو اللہ رب العزت نہ صرف ہم سے خوش ہوگا بلکہ ہمیں اس کے
مثبت نتائج زندگی میں ہی محسوس ہوتے نظر آئیں گے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد
گرد بسنے وہ لوگ جن کا تعلق یا تو ہمارے اپنے خاندان سے ہے یعنی رشتہ دار
یا وہ لوگ جن سے آ پ کی جان پہچان , دوستی یاری یا محلہ داری ہو لیکن وہ
اپنی سفید پوشی میں زندگی بسر کررہے ہوں انہیں بھی اس کار خیر میں یاد
رکھنا چہئے اللہ رب العزت ہم سے ضرور خوش ہوگا وقت تو یوں ہی گزر جائے گا
لیکن اچھا عمل اور اس کا اثر یہاں بھی باقی رہتا ہے اور اجر کی صورت میں
روز محشر میں بھی ضرور ملتا ہے انشأاللہ . |