تحریر: ام محمد سلمان، کراچی
جب میں چھوٹا تھا تو ٹی وی پر 14اگست اور یوم دفاع پاکستان کی نشریات بڑے
شوق سے دیکھا کرتا تھا۔ اس وقت آج کی طرح چینلز کی بھرمار نہیں تھی، صرف پی
ٹی وی کا چینل ہی ہوا کرتا تھا ان دو دنوں میں بہت خوب صورت نشریات آیا
کرتی تھیں ۔ 14اگست کو میں صبح ہی صبح ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا، شہداء کی
قربانیوں کے بارے میں بتایا جاتا تو میں بہت شوق سے سنتا، فوج کی پریڈ
دیکھتا، وطن کی محبت میں ڈوبے ملی نغمے اور پر جوش تقریریں سنتا اور اندر
ہی اندر خوشی سے پھول جاتا ۔ میں خوش ہوتا تھا کہ ہاں یہ میرا وطن ہے یہ
صحت مند جفا کش فوج میرے وطن کی ہے یہ کھیت کھلیان سب میرے ہیں، یہ
فیکٹریاں، کارخانے سب میرے ملک کی خودداری کی نشانی ہیں اور یہ خوبصورت دل
میں اتر جانے والے قومی گیت میرے وطن کے بارے میں ہیں ۔
جب ٹی وی پر چلتا تھا ’’سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘‘تو میں
جھوم جھوم جاتا، ساتھ ساتھ گاتا تھا ۔ شاید وطن کی محبت میری جڑوں میں
سمائی ہوئی تھی میں جب پاکستان نیوی کے جہازوں کو فضاؤں میں پرواز کرتے
دیکھتا تو خود کو بھی ساتھ اڑتے محسوس کرتا ۔ بچپن کا وہ یوم آزادی بہت خوب
صورت ہوا کرتا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں جھنڈے، جھنڈیوں اور
بیج کے علاوہ اور کوئی چیز جشن آزادی کے نام پر نہیں ہوتی تھی مگر ہمارے دل
وطن کی محبت سے بھرپور ہوتے تھے ۔
میرا خواب تھا کہ میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا اور اپنے ملک کے لوگوں کی
خدمت کروں گا اور یہی لگن دل میں لیے میں بہت شوق سے اپنی تعلیم حاصل کررہا
تھا ۔ میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا، اب میں میڈیکل کالج میں جانا چاہتا
تھا مگر وہ میرے قصبے سے دور، بڑے شہر میں تھا اور میری ماں مجھے کسی صورت
اپنے سے دور بھیجنے پر راضی نہ ہوئی ۔ ابو جی نے مجھے اپنے علاقے میں ہی
ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان کھول دی اور میری زندگی کی گاڑی چلنے لگی ۔
میں خوش تو نہیں لیکن مطمئن ضرور تھا کیونکہ ابا اماں مجھ سے خوش تھے پھر
ایک سیدھی سادی سی گھریلو لڑکی سے میری شادی ہو گئی ۔ اور میں گھر گرہستی
کے فرائض ادا کرنے میں مشغول ہو گیا ۔
اب تو بالوں میں چاندی اترنے لگی ہے عمر رفتہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف
گامزن ہے میری چھوٹی سی دکان ایک بڑے جنرل اسٹور میں تبدیل ہو چکی ہے لیکن
میں اپنے بچپن کی طرح آج بھی اپنے وطن کی محبت میں سرشار ہوں یہ واحد چیز
ہے جو بچپن سے لے کر آج تک میرے ساتھ ہے ۔
میرے دوست پڑھ لکھ کر بہت آگے نکل گئے کوئی بزنس مین بن گیا، کوئی اچھے
سرکاری عہدے پر فائز ہو گیا اور کوئی اچھا کھلاڑی بن گیا ۔ انھیں لگتا ہے
کہ شاید میں ملکی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکا ۔ مگر ایسی بات نہیں
ہے میں اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوں کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے اخلاق و کردار
کو سنوارا تاکہ میرے ملک کو میری صورت میں ایک اچھا شہری ملے میں نے اپنے
کاروبار میں کبھی خیانت نہیں کی ہمیشہ ایمانداری کو اپنا نصب العین بنائے
رکھا ۔ کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا، کسی پر ظلم نہیں کیا اور نہ کسی کی حق
تلفی کی ۔ اپنے وطن کے چپے چپے سے پیار کرتا ہوں اسی لیے کبھی اپنے شہر،
اپنے گلی کوچوں کو گندا نہیں کرتا ۔ ہمیشہ چلتے ہوئے راستے سے پتھر، چھلکے
اور دیگر کوڑا کرکٹ ہٹاتے ہوئے جاتا ہوں قریب کوئی کوڑے دان ہو تو اٹھا کے
اس میں ڈال دیتا ہوں ورنہ راستے سے ایک طرف کر دیتا ہوں تاکہ کسی کو تکلیف
نہ ہو کیونکہ میں اپنے وطن سے محبت کا عملی ثبوت دیتا ہوں ۔
میں نے کبھی ناپ تول میں کمی نہیں کی، کبھی کاروبار میں کوئی اونچ نیچ نہیں
ہونے دی، ہمیشہ محنت اور ایمانداری سے کام کرتا رہا، دوسروں سے ہمیشہ نرم
اور میٹھے لہجے میں بات کرتا ہوں تاکہ میرے وطن کے باسیوں کو میرے وجود سے
کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ میں کبھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔
گیس، بجلی، پانی اور فون صرف بقدرِ ضرورت استعمال کرتا ہوں اور میرے بیوی
بچے ان سب کاموں میں میرے معاون ہیں ۔ میری بیوی بہت کفایت شعار اور سلیقہ
مند ہے ۔ فارغ وقت میں محلے کی بچیوں کو قرآن کی تعلیم دیتی ہے ۔ ہم لوگ
اپنے وقت کو ضائع نہیں کرتے دن رات اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں
ہیں ۔
کیا ہوا اگر میں کسی اونچے عہدے پر نہیں پہنچا، کوئی قابل ڈاکٹر، بڑا وکیل
یا فوج کا پائلٹ نہیں بن سکا ۔ ۔ ۔ لیکن میں ایک اچھا انسان بنا، ایک اچھا
مسلمان بنا، میں نے اپنے وطنِ عزیز کو ایک اچھا شہری اور اچھا خاندان دیا،
اپنے بچوں کو ایک مثبت سوچ دی انھیں معاشرے کا فعال فرد بننا سکھایا ۔ میں
اپنی زندگی میں کبھی حصول پاکستان کے مقصد سے غافل نہیں ہوا ۔
کون کہتا ہے کہ ملک کی خدمت صرف بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر ہی کی جاسکتی ہے؟
دراصل ہم اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور جب وہ پورے نہیں ہوتے تو ہم
سمجھتے ہیں شاید اب ہم کسی کام کے نہیں رہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے ہر شخص
اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے وطن کی خدمت کر سکتا ہے ہر وہ شخص جو اپنے
فرائض منصبی کو بخوبی ادا کررہا ہے، ملکی قوانین کی پاسداری کرتا ہے، وطن
عزیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، وہ دراصل ملک و قوم کی حفاظت، اس کی بقا
اور ترقی کے لیے کام کررہا ہے چاہے وہ کوئی حکومت کا اعلی عہدیدار ہو یا
کوئی معمولی ملازم، فوج کا جرنل کرنل ہو یا خانساماں، کسان ہو یا تاجر،
جوان ہو یا بوڑھا، گھریلو عورت ہو یا ورکنگ وومن، مزدور ہو یا انجینئر،
دھوبی ہو یا موچی، طالب علم ہو یا استاد۔ ۔ ۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ سے،
اپنے ملک سے اور اپنے دین سے مخلص ہے اور ملک کی سلامتی و بقا اور تعمیر و
ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے، تو حقیقتاً وہی شخص ملک و قوم
کی خدمت کررہا ہے، اگرچہ وہ ایک عام سا شہری ہو ۔ ۔ ۔ اگرچہ وہ ایک عام سا
شہری ہو ۔ ۔ ۔ ۔ |