بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اﷲ کریم نے سرزمینِ مکہ کوبہت زیادہ عظمتیں اور رفعتیں عطا فرمائیں ہیں،اسے
حرمت والا شہرقرار دیااورہزاروں انبیاء کرام کی قیام گاہ اور آخری آرام گاہ
بنایا ،اس کی شان یہ ہے کہزمانہ جاہلیت میں بھی یہ قانون رہا کہ جویہاں
داخل ہو گیاوہ امان پا گیا ،یہ رسول اﷲ ﷺ کی جائے پیدائش اور اﷲ کریم
کامحبوب ترین شہر ہے ،مرکز ِوحی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شہر اسلام کی شان
وشوکت کی علامت بھی ہے، اسلامی تاریخ ،تہذیب وتقافت کے اس مرکز کودنیا کی
بقا کا ضامن بھی قرار دیا گیا ہے ،رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے "میری امت
جب تک اس حرم مقدس کا پورا احترام کرتی رہے گی اور اس کی حرمت و تعظیم کا
حق ادا کرے گی خیریت سے رہے گی اور جب اس میں یہ بات باقی نہ رہے گی ،برباد
ہو جائے گی۔(سنن ابن ماجہ)
رسول اﷲ ﷺ اس مقدس شہر سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ،کیونکہ یہ روئے زمین
میں سب سے افضل جگہ ہے ،اﷲ کریم کی تجلیا ت کا مرکز ،قیامت تک اہل ایمان کا
قبلہ اور مرکز ایمان یہی شہر ہے،ہجرت ِمدینہ کے موقع پر آپ ﷺنے شہر مکہ کے
لیے جو کلمات ارشاد فرمائے ،ان کا ہر ہر لفظ اس شہر کے مقام و مرتبہ کو
واضح کرتا ہے ، حضرت عبداﷲ بن عدی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو
دیکھا کہ آپ ﷺ مکہ میں مقام حزورہ پر کھڑے تھے اور مکہ سے مخاطب ہوکر فرما
رہے تھے "اﷲ کی قسم ،اے مکہ ! تو اﷲ کی ساری زمین سے بہترجگہ ہے،اور اﷲ کی
نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے،اگر مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر
مجبور نہ کیا گیا ہوتا ، تو میں ہرگز تجھے چھوڑ کے نہ جاتا۔(جامع ترمذی)
مکہ مکرمہ کے وسط میں قدیم ترین وہ گھر موجودہے جس کو اس روئے زمین پر سب
سے پہلے عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا،جس کی بنیادیں حضرت آدم علیہ
السلام نے اٹھائیں ،اسی بے آب وگیاں وادی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
اﷲ کے حکم سے آبادکیا ،یہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑیاں رگڑنے سے
آب زم زم کاایسا چشمہ ظاہر ہوا کہ صدیوں سے خلق خد ااس سے فیض یاب ہوتی چلی
آرہی ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام
کے ساتھ وادی مکہ میں دوبارہ بیت اﷲ کی بنیادیں" جو حوادثات زمانہ کی وجہ
سے معدوم ہو چکی تھیں " کھود کر اس کی تعمیر مکمل فرمائی ، اﷲ کریم نے آپ
کو لوگوں میں حج کا اعلان کرنے کا حکم فرمایا"اور لوگوں میں حج کا اعلان
کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی
ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے )دبلی ہوگئی ہوں ۔"(الحج
۔۲۷)اور نبی آخر الزمان کے لیے اور اس گھر کی آبادی کے لیے دعا فرمائی ۔اور
اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم علیہ السلام بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے
،اور اسماعیل بھی ،"اے ہمارے پروردگار !ہم سے (یہ خدمت)قبول فرمالے ،بے شک
تو اور صرف تو ہی ،ہر ایک کی سننے والا ،ہر ایک کو جاننے والا ہے
۔"(البقرۃ۔۱۲۷)اور آپ نے بیت اﷲ کی آبادی کے لیے یہ دعا فرمائی" اے ہمارے
پروردگار !ان میں ایک ایسا رسول بھیج جوانہی میں سے ہو ،جو ان کے سامنے
تیری آیتوں کی تلاوت کرے ،انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو
پاکیزہ بنائے۔(البقرۃ۔۱۲۹)یہی وجہ ہے کہ بیت اﷲ کی دیکھ بھال اور یہاں آنے
والے حاجیوں کی خدمت اٰل اسماعیل میں رہی اور بنی کریم ﷺ کی ولادت و بعثت
بھی مکہ اور اٰل اسماعیل میں ہوئی۔
بیت اﷲ کو بیت العتیق بھی کہا جاتا ہے یعنی سب سے قدیم گھر یا آزاد گھر ،
حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا "بے شک اﷲ کریم نے بیت اﷲ کا نام عتیق اس لیے رکھا کہ اس کو ہر ظالم
و جابر اور طاغوتی طاقتوں سے آزاد رکھا ہے ،لہذا کبھی کوئی ظالم و جابراس
پر غلبہ حاصل نہیں کرسکے گا۔"۔(مستدرک حاکم )جب کہ بیت اﷲ کے عین
اوپرساتویں آسمان پرفرشتوں کی عبادت گاہ ہے جسے بیت المعمور کہا جاتا ہے
،حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا"بیت
المعمور ساتویں آسمان میں ہے اس میں روزآنہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوکر اﷲ کی
عبادت کرتے ہیں جو ایک بار داخل ہوگئے ان کو دوبارہ داخل ہونے کی نوبت نہ
آسکے گی،حتیٰ کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔"(شعب الایمان)
اﷲ کریم نے امت مسلمہ کے صاحب استطاعت لوگوں پر حج بیت اﷲ کو فرض قرار دیا
ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے "اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی
استطاعت رکھتے ہوں ان پر اﷲ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے ،اور اگر کوئی
انکار کرے تو اﷲ دنیا جہاں کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔"(اٰل عمران
۔۹۷)بیت اﷲ پر انوارات و برکات کا اتنی کثرت سے نزول ہوتا ہے کہ حضرت جابر
رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا "میری مسجد میں
نماز دوسری مساجد کی بنسبت ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے مگر مسجد الحرام
،اور مسجد الحرام میں نماز ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے ۔(مسنداحمد) حرم کی
نیکیوں کی قدر کابڑھنا صرف نماز تک محدود نہیں بلکہ حدود ِ حرم میں کی جانے
والی ہر نیکی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
بلاشبہ حرم مکی کے ساتھ لگنے والی ہر نسبت اعلیٰ اور ارفع ہے ،ہر مسلمان کا
دل اہل حرم کے ساتھ اورارضِ حرم کے لیے ہر آن اور ہر گھڑی دھڑکتا رہتاہے
،ہرآنکھ بیت اﷲ کے دیدار کے لیے تڑپتی رہتی ہے ،جو حج و عمرہ کی سعادت حاصل
چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ شرف ِباریابی کے لیے بے چین ہوئے رہتے ہیں ،اس میں
دو رائے نہیں کہ بیت اﷲ کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے ،جسے
وہ سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔ |