ایک پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا۔ اِس
پاکستان کے بانی قائدِاعظم محمد علی جناحؒ تھے جو زمین کا ایک ایسا ٹکڑا
حاصل کرنا چاہتے تھے جسے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے زمین کے اِس ٹکڑے
کا نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا اِلہ ا لّااﷲ‘‘ تھا۔ بانیٔ پاکستان کی
رحلت کے بعد کچھ عرصہ تک تو اِس نعرے کی گونج سنائی دیتی رہی لیکن پھرقوم
اپنے رَبّ کے ساتھ کیے گئے اِس وعدے کو بھولتی چلی گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے
کہ یہ نعرہ دینی جماعتوں کے ہاں توپھر بھی سنائی دے جاتاہے لیکن قوم کی
غالب اکثریت اسے بھول چکی۔ وجہ شائد یہ کہ قوم کو دینی جماعتوں پر اعتماد
ہی نہیں، اِسی لیے تو قوم اِنہیں ووٹ کی پرچی سے نہیں نوازتی۔ جو پاکستان
قائدِاعظمؒ کی کوششوں اور کاوشوں سے معرضِ وجود میں آیا، وہ کچھ مقتدر
حلقوں کو پسند نہیں آیا، چنانچہ ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔
اِس پاکستان کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن تھے، سرپرستی
اُن کو اُس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خاں کی حاصل تھی۔ بھٹو
اور مجیب کی کوششوں اور کاوشوں سے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان
میں بھارتی جنرل اروڑا کی سربراہی میں اِس نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔
کیا ہوا جو پلٹن میدان کی ٹھنڈی دھوپ میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے گئے ،
نیا پاکستان تو بن گیا۔ لاریب اِس نئے پاکستان کو روحِ قائدؒ نے پسند کیا
نہ روحِ اقبالؒ نے۔پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد شاعر نے کہا
پھول لے کر گیا ، آیا روتا ہوا ، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبالؒ سے آ رہی تھی صدا ، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
بچے کھچے نئے پاکستان کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کا نعرہ ’’روٹی، کپڑا اور
مکان‘‘ تھا۔ اُن کے نزدیک طاقت کا سرچشمہ اﷲ نہیں، عوام تھے۔ وہ کہا کرتے
تھے ’’میں کمزور سہی، میری کرسی بہت مضبوط ہے‘‘۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ
جنرل ضیاء الحق نے پہلے اُن سے کرسی چھینی اور پھر اﷲ کے پاس پہنچانے کا
بندوبست بھی کردیا۔
ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیاد جنرل ضیاء الحق نے بھی رکھی جس کا نعرہ
’’اسلامی نظام‘‘ تھا۔ اُنہوں نے ایک ریفرنڈم بھی کروایا۔ اِس ریفرنڈم کے
لیے شرط رکھی گئی ’’اگر آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو ’’ہاں‘‘
میں جواب دیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے ضیاء الحق کو پانچ سال کے لیے
صدر منتخب کر لیا‘‘۔ گویا اﷲ تعالےٰ، یومِ آخرت، تمام انبیاء، تمام فرشتوں
اور تمام آسمانی کُتب پر ایمان لانے کے ساتھ ہی ساتھ پاکستانی مسلمانوں کے
لیے ضیاء الحق کی صدارت کے لیے ’’ہاں‘‘ کا ووٹ دینا بھی ایمان کی چھٹی
بنیادی شرط ٹھہرا۔ اُنہی دنوں ایک لطیفہ زباں زدِعام ہوا، آپ بھی سُن
لیجئیے۔ پیپلزپارٹی کے ایک جیالے نے دوسرے جیالے سے کہا ’’یار یہ ضیاء الحق
کب قوم کی جان چھوڑے گا؟‘‘۔ دوسرے جیالے نے جل بھُن کر کہا ’’یہ قوم کو
پورا قُرآنِ مجید پڑھا کر ہی جائے گااور ابھی تو اُس نے صرف سورۃ فاتحہ ہی
سنائی ہے‘‘۔ ضیاء الحق کی اسلام کی آڑ میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی تگ ودَو
نے لبرل اور سیکولر طبقوں میں نئی روح پھونک دی اور وہ سرِعام کہنے لگے کہ
(نعوذ باﷲ) اِس دَورِجدید میں اسلامی نظام ناقابلِ عمل ہے۔ دینی اور سیکولر
طبقوں کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔
ضیاء الحق فضاؤں میں ہی اﷲ کو پیارے ہوئے تو ایک دفعہ پھر جمہوری دَور لوٹ
آیا لیکن طرفہ تماشہ یہ کہ لگ بھگ اِس دَس سالہ دَور میں4 عام انتخابات
ہوئے ۔ اِس جمہوری دَور میں بینظیر اورمیاں نوازشریف دو، دو، مرتبہ
وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ پھر جنرل پرویز مشرف ’’نیاپاکستان‘‘ تشکیل دینے کے
لیے نمودار ہوئے۔ اُن کا نعرہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ تھا۔ ہم سمجھے کہ اِس
نعرے کا مطلب پاکستان کی سلامتی شرطِ اوّل لیکن حالات نے ثابت کیا کہ وہ تو
سب سے پہلے پاکستان کو ڈبونے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے۔ نائن الیون کے بعد
امریکہ کی ایک فون کال پر یہ کمانڈو ’’لَم لیٹ‘‘ ہو گیا اور وہ کچھ بھی مان
لیا جس کا امریکہ نے تقاضہ بھی نہیں کیا تھا۔ امریکہ کے اِس اتحادی نے
پاکستان کو اندھی اور بے چہرہ افغان جنگ میں جھونک دیا ، یہ جنگ آج بھی
جاری ہے۔ ڈرون حملے، بم دھماکے اور خودکُش بمبار اِس کمانڈو کی پالیسیوں ہی
کا نتیجہ ہیں، جنہیں یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اب ہم ایک دفعہ پھر ’’نیا
پاکستان‘‘ بنانے جا رہے ہیں۔
اِس نئے پاکستان کا نعرہ ’’تبدیلی‘‘ ہے۔ یہ تبدیلی ہمیں خیبرپختونخوا میں
تو کہیں نظر نہیں آئی، البتہ کپتان کے گھر میں دو مرتبہ تبدیلی آچکی۔ ریحام
خاں سے شادی کے بعد ایک دِن کپتان نے اَز راہِ تفنن کہا ’’کون کہتا ہے کہ
تبدیلی نہیں آئی، میرے گھر میں تو آچکی‘‘۔ ویسے ’’تبدیلی پروگرام‘‘ کے اصل
معماروں نے تو کافی پہلے اپنے پروگرام پر عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ نئے
پاکستان کی پہلی اینٹ تو اُسی دِن رکھی جا چکی تھی جب کیس پاناما کا تھا
اور میاں نوازشریف کو سزا اقامہ پر ہوئی۔ پھر سپریم کورٹ کی زیرِنگرانی
احتساب عدالت نے اُنہیں 10 سال قیدِ با مشقت کی سزا سنا کر اڈیالہ جیل بھیج
دیا۔ حیرت ہے کہ احتساب عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں یہ کیوں لکھا کہ
استغاثہ ملزمان کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا لیکن گمان
یہ ہے کہ استغاثہ جھوٹ نہیں بول رہا، اِس لیے میاں نوازشریف کو 10 سال،
مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو اعانتِ جرم میں ایک سال قید با
مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ کیا دنیا کی تاریخِ عدل میں اِس کی کوئی نظیر
ملتی ہے؟۔ اگر نہیں تو پھر ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ تبدیلی آ نہیں رہی،
تبدیلی آ گئی ہے۔
ایک ’’تبدیلی‘‘ کا مشاہدہ قوم نے اُس وقت کیا جب پنچھیوں کو نون لیگ کی
ڈالیوں سے اُڑ کر تحریکِ انصاف کے تَن آور درخت کی گھنیری چھاؤں میں بیٹھنے
کا حکم صادر کیا گیا۔ نون لیگ کے 100 سے زائد پنچھی تحریکِ انصاف میں شامل
ہوئے اور ’’صاف چلی، شفاف چلی‘‘ کے علمبردار عمران خاں بھی یہ کہنے پر
مجبور ہوئے کہ الیکٹیبلز ہوں گے تو وہ وزیرِاعظم بنیں گے۔ سوال مگر یہ کہ
جو الیکٹیبلز گزشتہ چھ عشروں سے تبدیلی نہیں لا سکے، وہ اب تحریکِ انصاف کے
پلیٹ فارم سے کیسے اور کیونکر تبدیلی لا سکیں گے؟۔ تبدیلی پروگرام کے’’
خالقوں‘‘ نے پولنگ ڈے تو سکون سے گزار دیا اور شام چھ بجے تک چھوٹی موٹی
شکایات ہی دیکھنے میں آئیں لیکن جوں ہی گنتی کا عمل شروع ہوا تو ایسا
’’دھوم دھڑکا‘‘ دیکھنے میں آیاجوتاریخِ پاکستان میں پہلے کبھی دیکھا نہ سنا۔
جب لگ بھگ رات 10 بجے نتائج آنا یکلخت بند ہوئے اور الیکشن کمیشن میں
خاموشی چھا گئی تو محترم چیف جسٹس اُف پاکستان میاں ثاقب نثار نے تین مرتبہ
چیف الیکشن کمیشنر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تو خوابِ خرگوش کے مزے
لوٹ رہے تھے اور آر اوز پوری محنت وجانفشانی سے تبدیلی پروگرام کے مطابق
نتائج مرتب کرنے میں مصروف۔
قوم نے ایک تبدیلی کا مشاہدہ اُس وقت بھی کیا جب ضابطۂ اخلاق کی صریحاََ
خلاف ورزی کرتے ہوئے کپتان نے ووٹ کی پرچی پر سرِعام ’’ٹھپہ‘‘ لگایا۔
الیکشن رولز کے مطابق اِس کی سزا 6 ماہ قید ہے لیکن یہ قید ’’عامیوں‘‘ کے
لیے ہے، کپتان جیسے ’’خاص الخاص‘‘ کے لیے نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ضابطۂ
اخلاق کی اِس صریحاََ خلاف ورزی پر نوٹس تو ضرور لیا اور چار رکنی بنچ بھی
تشکیل دیا لیکن معافی تلافی کے بعد کپتان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری
کر دیا۔ ہماری معزز عدلیہ بہت مہربان ہے اورتوہینِ عدالت پر عموماََ معاف
بھی کر دیتی ہے لیکن یہ معافی نوازلیگ کے لیے نہیں کیونکہ اگر نوازلیگ قائم
ودائم رہی تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی؟۔ خیر! گزشت آنچہ گزشت، اب کپتان کی
دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہے۔ وہ غالباََ 18 اگست کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف
اُٹھانے جا رہے ہیں۔ حلف اُٹھانے کے بعد وہ یقیناََ ہم سب کے وزیرِاعظم ہوں
گے جن کی کامیابی کے لیے پوری قوم کو دعاگو ہونا چاہیے کیوں کہ اِسی میں
ملک وقوم کا بھلا ہے۔سوال مگر یہ کہ کیا آٹھ، نو، چھوٹی سیاسی جماعتوں اور
آزاد ارکانِ اسمبلی کے اتحاد کے ساتھ وہ ’’نیا پاکستان‘‘ بنا پائیں گے؟۔
سلگتا ہوا سوال یہ بھی کہ صرف 26 ارکانِ اسمبلی کے ساتھ اُنہوں نے پورے 5
سال جو احتجاجی دھمال ڈالی، کیا تاریخِ پاکستان کی مضبوط ترین اپوزیشن اب
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ پر کہ جن ’’ہاتھوں‘‘
نے کپتان کو مسندِ اقتدار تک رسائی دلائی، کیا وہ ہاتھ اُنہیں ایک مضبوط
ترین وزیرِاعظم کے روپ میں دیکھنا پسند کریں گے؟۔ پہلے تو کبھی ایسا ہوا
نہیں، اب آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ |