تحریرثناء نوشین، ڈیرہ اسماعیل خان
ہر طرف ایک ہی سوال ہے جشن آزادی کس طرح منائی جائے کہ جشن یادگار لگے۔مگر
ایک سوال میری طرف سے ہم آزاد کب ہوئے تھے؟ اس سوال کا جواب کسی نے کیا خوب
دیا ہے، کیا ہم گاؤ ماتا کی عبادت کرنے لگے یا ہندو ہمارے ایک خدا پر ایمان
لے آئے کہ آزادی کا مفہوم باقی نہیں رہا ،سب کچھ ویسا ہی تو ہے ۔پھر آئے
روز یہ سوال چھری کی مانند ہمارے ذہنوں میں کیوں گھونپا جاتا ہے۔ تو جناب
والا یہ سوال کرنے والے اپنے سوال کا مفہوم اچھے سے سمجھا نہیں پائے شاید۔
درحقیقت ہم نے جب بچے کو فوجی بنانا ہوتو اسکو فوجیوں سی تربیت کرتے۔جب
ڈاکٹر بنانا ہوتو گھر کا ماحول ویسا ہی کرنا ہوتاہے۔ یا یوں سمجھ لیں ہم
اپنے بچے کو جو بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے بچے کوذہنی طور پر تیار کرتے
ہیں تب جا کر بچہ کامیاب ہوتا ہے۔ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہوکہ بچے کو دینی
ماحول میں تربیت دی گئی ہواور بچہ متضاد عادات کو اپناکر غلط راہ پر چل پڑے۔
بچے کو بچپن سے ہی جو ماحول فراہم کیا جائے وہ بڑا ہوکر بھی اسی کے تابع
رہتا ہے۔بات ہو رہی تھی جشن آزادی کی ، تو پاکستان کے قیام کی بنیاددو قومی
نظریہ تھا۔ یعنی ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد تھیں ہندو اور مسلمان۔جب
بھی کسی میدان میں انکا آمنا سامنا ہوتا،ایک عجیب سماں ہوتا۔ دونوں قومیں
ایک دوسرے کی مخالفت میں پیش پیش ہوتیں۔دونوں قوموں کا رہن سہن، مذہبی
رسومات، زبانیں ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھیں، غرض یہ کی ہندو اور مسلمان
ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔اور یہی دوقومی نظریے کی بنیاد تھی۔
پاکستان کا قیام کا مقصد ایک ایسی مملکت کا حصول تھا جس میں رہ کر مسلمان
آزادی کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکیں ۔ اس لیے اس ملک کا نام
پاکستان۔یعنی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ رکھا گیا۔اسے مدینہ ثانی بھی کہا
جاتا کیوں کہ مدینہ منورہ کا مطلب بھی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے۔قربان
جاؤں ان با شعور رہنماؤں اور ان شہیدوں کے جنہوں نے اپنے لہو سے اس پاکستان
کی بنیادیں رکھیں۔
لیکن افسوس ان کی قربانی تعبیر پا نہ سکی۔ آج ہم نے وہ تمام مذہب ،وہ
روایات ،وہ جدا زبانیں،وہ بے لباسی،وہ بے دینی،وہ اپنے ہی گھروں میں لا کر
سجا دیے۔اب تو ماہ رمضان میں باقاعدہ لوگ احتجاج کرنے لگے پروگراموں پر۔مگر
پیمرا یا پروگرام پر ہی کیا موقوف ہمارے بچے اپنے موبائل پر 100 روپے میں
ایک ہفتہ آرام سے پورن سائیٹس دیکھ سکتے۔10 روپے ڈیلی کال پیکج کر کے کے
بچیوں کو وقت سے پہلے جوان کر دیتے۔تو پھر کیا یہ ملک آزادی کے معنی رکھتا
ہے۔امیر کو تب بھی سب معاف تھا آج بھی زور کو سلام ہے۔مگر میرا مطلب اپنے
ملک کی کمزوریاں دکھانا نہیں بلکہ آزادی کے حقیقی معنی سے اس قوم کو روشناس
کروانا ہے۔
میں ایک اہم نکتے کی طرف حکام بالا اور صاحب اقتدار لوگوں کی توجہ مبذول
کرانا چاہتی ہوں۔ نکتہ یہ ہے کہ ہم جب تک مانگے کا انٹرنیٹ استعمال کریں
گے۔ہمارے دشمن کو کوئی پریشانی نہ ہو گی ہمارے بنکنگ کا نظام، ہمارے سرکاری
ادارے ،ہمارا نادرا۔یعنی ہماری شناخت بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہے ہم جتنی
ترقی کر لیں مگر یہ مانگے کا انٹرنیٹ جب چاہے ہمیں معذور اور مفلوج بنا
سکتا ہے۔اب دشمن ہمیں ہماری صفوں میں گھس کرمار رہے ہیں اور یہ سب اتنے
منظم طریقے سے ہو رہا کہ عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔پاکستان کا اپنا
انٹرنیٹ سسٹم ہونا چاہیے۔ جہاں کسی بھی قسم کا غیر اخلاقی مواد کا استعمال
کرنے والا فورا سے پہلے گرفت میں آ جائے۔ایسا سسٹم کہ دشمن جب ہمارے کسی
سسٹم، کسی ادارے کی معلومات چوری کرنے کی کوشش کرے تو فورا پکڑا جائے۔ ہمیں
مل کر پاکستان کو اتنا مستحکم بنانا ہے کہ کوئی ہمارے وطن کی طرف میلی نگاہ
سے دیکھنے کی جرات بھی نہ کرسکے۔ |