تحریر : حوریہ ایمان ملک ،سرگودھاپاکستان
ہر نئی صبح کی کرن امید بن کر اس کے دل میں پھوٹتی اور ہر رات کی تیرگی اسے
مایوسی کی چادر میں لپیٹ کر سلادیتی۔ سماہر شکست خوردہ قدم اٹھاتی آئینے کے
سامنے جا کھڑی ہوئی۔ آئینے میں اسے اپنا مسخ شدہ چہرہ دکھائی دیا۔ طمانچے
کی حدت سے اسکا گال اب تک دہک رہا تھا۔ وہ خود کو پہچان نہیں پارہی تھی۔
جگہ جگہ نوچے گئے جسم پر خون رس کر جم چکا تھا۔ درد کی لہر اس کے پورے وجود
میں ہلکورے لی رہی تھی۔ ضبط کی اذیت سے دوچار آنکھیں روح پر لگے گھاؤ دیکھ
کر برس پڑیں تو اسکے دکھ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس نے خود سے نظریں چرائیں
اور اپنی ذات کی بکھری کرچیاں سمیٹتے ہوئے نڈھال ہو کر بیڈ پر گر گئی۔اس کا
ذہن مختلف سمتوں میں بھٹکنے لگا۔ وہ راہ فرار چاہتی تھی خود سے، حالات سے،
مجبوریوں سے اور سمجھوتے سے۔ مگر اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
آخر میرا جرم کیا ہے ؟ اس نے خود سے سوال کیا۔ عورت ہونا ؟وہ عورت ہے اسی
لیے بولنے کا حق چھین کر اسے صرف سننے اور ماننے کا حق دیا گیا ہے۔ وہ
کمزور ہے اس لیے اس کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں، جس سے زندگی کے ہر محاذ
پر ہار اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔آخر کب تک ؟ایک عرصے سے جو لاوا اس کے اندر پک
رہا تھا وہ اب پھوٹنے کو بے تاب تھا۔ وہ ایسے ہی کئی سوالوں میں الجھی پڑی
تھی۔
اس کے کمرے میں گھٹن حد سے بڑھنے لگی تو اس نے اٹھ کر کھڑکی سے دبیز پردے
ہٹا دیے۔ روشنی سے اس کا وجود نہا گیا مگر اس کے اندر کی گھٹن و تیرگی کم
نہ ہو پائی۔
اسی بے دھیانی میں اس کی نظر میز پر رکھی ڈائری پر پڑی تو اسے اپنے احساسات
کو قلم بند کرنے کا خیال آیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ لکھنے کا حق تو اب
بھی اس کے پاس ہے جو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اب وہ روز اس میں عورت پر
ہونے والی معاشرتی ناانصافیاں، تلخ رویے اور احساسات لکھنے لگی۔اسے اپنے
اندر کی گھٹن کو کم کرنے کا ایک راستہ مل گیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے اپنے
جیسے کئی کردار تخلیق کر ڈالے۔معصوم اور مظلوم کردار بالکل اسی کی طرح ستم
رسیدہ۔ روتے بسورتے کردار اسے منہ چڑاتے تو اس کے حزن میں مزید اضافہ ہو
جاتا۔ سماہر کو ان کرداروں کی مظلومیت سے الجھن اور کوفت سی ہونے لگی تھی
وہ لاشعوری طور پر اپنی خود ترسی اور مایوسی کے حصار سے باہر نکلنے لگی تھی،
اس کا تخیل پرواز کرنے لگا، پھر وہ بے باک اور نڈر کردار تخلیق کر کے انہی
کرداروں اور ان کے لیے تخلیق کردہ ماحول میں ہی سانس لینے لگی۔اس نے کھوئی
ہوئی اور ریزہ ریزہ سماہر کو اپنے کرداروں میں ڈھونڈ کر اپنی شناخت کی راہ
پالی۔جس سے وہ خود کو آزاد فضا کا راہی اور اپنی روح کو طاقتور محسوس کرنے
لگی۔۔ اس احساس نے اس کے بکھرے وجود میں حوصلے کی نئی شاداب فصل اگا دی۔
پھر ایک روز اس نے دیکھا کہ اسے ذہنی و جسمانی طور پر نوچ کر لہو لہان کر
دینے والا مرد اپنی ڈھے چکی مردانگی کے ڈھیر پر کھڑا چلا چلا کر یہ اعلان
کر رہا تھا کہ وہ باغی ہوچکی ہے، کیونکہ اس نے خود پر اٹھنے والا مرد کا
ہاتھ روک لیا تھا۔سماہر آنسوؤں سے تر چہرے سے مسکراتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ
وہ واقعی باغی ہو چکی ہے یا جاگ چکی ہے۔
|