عائشہ طارق
عورت کیا ہے؟ پاؤں کی جوتی۔ افسوس ہوتا ہے یہ الفاظ سن کر۔ ہمارے معاشرے کے
لوگ آج بھی اتنی پست سوچ رکھتے ہیں۔ عورت کو چلنے کا حق تو دے دیا ہے مگر
ساتھ چلنے نہیں دیا جاتا۔ عورت کو زندہ تو رہنے دیا جاتا ہے۔ مگر جینے نہیں
دیا جاتا۔ میں سمجھ نہیں پاتی کہ کیا یہ وہہی اسلامی معاشرہ ہے۔ جس کی
تشکیل کے لئے ہزاروں عورتوں نے اپنی جانوں کی، اپنی عزتوں کی قربانی دی تھی
۔ آج اس معاشرے میں عورت کو سر اٹھا کر زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اسلام کے آنے سے پہلے عورت کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا۔ اس کی عزت
نہیں کی جاتی تھی۔ مگر پھر اسلام نے آ کر اس کو برابری کا درجہ دیا۔ اس کو
برابر کے حقوق دیئے۔ اس دور میں عورت باحفاظت میلوں کا سفر اکیلے کرتی تھی۔
عورتیں محنت مزدوری کیا کرتی تھیں۔ عورتیں تجارت کیا کرتی تھیں۔ حضرت حدیجہ
کی مثال سر فہرست ہے۔
تجارت وہ پیشہ ہے جس کو خالص مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں مختلف
علاقوں اور جگہوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اور آج کے دور میں جب ماڈرنزم کے
نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔ ان
کی برابری کی بات ہوتی ہے۔ اس میں عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں
ہے۔ میں افسوس کے ساتھ کہتی ہوں کہ وہہی معاشرہ، وہہی ماڈرنزم کا دور جو
عورت کی آزادی کی بات کرتا تھا۔ وہہی عورت کو عزت اور برابری کے حقوق دینے
میں فیل ہوگیا ہے۔ آج بھی اس ماڈرنزم کے دور میں عورت کے ساتھ وہی وحشیانہ
سلوک کیا جاتا ہے جو اسلام کی آمد سے قبل کیا جاتا ہے یا شاید اس سے بھی
برا ۔۔۔
عورت کو برابری کے حقوق دینا تو دور کی بات اس کو عزت تک نہیں دی جاتی۔
ویسے ہمارے ہاں جو برابری کا مطلب لیا اور سمجھا جاتا ہے۔ وہ غلط ہے برابری
یہ نہیں ہوتی ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی رات دیر دیر تک گھر سے باہر
رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ چار مردوں کے درمیان بیٹھ کر قہقہے
لگائے جائیں۔ برابری کا مطلب تو اس کو اچھی تعلیم دی جائے اس کا معیار
مردوں کی تعلیم کے برابر ہو۔ ان کو ہر جگہ عزت دی جائے۔ اگر کوئی عورت اپنی
تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کرنا چاہتی ہے تو اس کو کھلے اور سچے دل سے
اجازت دی جائے۔ بیٹے کی پیدائش پر جس طرح خوشیاں منائی جاتی ہے۔ اسی طرح
بیٹی کی پیدائش پر بھی منائی جائے۔ بیٹے کو گھر کا وارث سمجھا جاتا ہے۔ اور
عورت کو وارثت میں سے اس کا جائزہ حصہ تک نہیں دیا جاتا۔ جب کے وراثت میں
عورت کا حصہ اس کا شرعی اور قانونی حق ہوتا ہے۔ عورت کوئی غلطی کردے تو اس
کو عزت کے نام پر لوٹا دیا جاتا ہے۔ جب کہ مردوں کی ساری خطائیں معاف کر دی
جاتیں ہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جس میں
"بیٹوں کے گناہ جلد معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ صلیب پر لٹکانے کو صرف بیٹیاں
ہی ہوتی ہیں."
عورت کو کام کی جگہ پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کو کہا جاتا
ہے گھر تو سنبھالا جاتا نہیں اور نوکری کرنے چلی آئی۔ اس طرح کی اور کئی
باتیں ہیں۔ جن کا سامنا عورتوں کو کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا معاشرہ کیوں نہیں
سمجھتا کہ عورتیں کن کن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرکے آگے آتیں ہیں۔
میں زیادہ دور نہیں جاؤں گی۔ ہماری پارلیمنٹ کو ہی لے لیجئے اس میں بھی
عورتوں پر تنقید کی جاتی ہے۔ اور ہراس منٹ کے معاملے میں بھی عورت کو ہی
تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سارا کا سارا بلمِ عورت کے سر ڈال دیا جاتا
ہے۔ سارے کیڑے عورت کے کپڑوں، اس کے کردار اور اس کے کام کرنے میں سے نکلے
جاتے ہیں۔
’’کہا جاتا ہے کہ ہراس منٹ اسی لیے ہوتی ہے کیونکہ عورتیں خود کو ٹھیک سے
نہیں ڈھانپتیں‘‘
’’ مگر کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے ایک دلچسپ تحقیق ہوئی تھی جس میں ریپ شدہ
خواتین اور بچیوں کے وہ لباس اکٹھے کیے گئے جو انہوں نے ریپ کے وقت پہن
رکھے تھے ۔ اور جانتے ہیں سب کے لباس مختلف تھے ۔کسی کا پورا لباس تھا ‘
کسی کا کھلا ‘ کسی کا تنگ تو کسی کا چھوٹا۔ اس لئے صرف لباس کو الزام دینا
چھوڑے۔ لباس وہاں میٹر کرتا ہے جہاں عورتوں مردوں کا روز کا بیٹھنا ہو ‘
اور خواتین اپنے نازیبا لباس سے کسی کو متوجہ کریں۔ مگر روٹین میں بس میں
سفر کرتی عورتیں‘ سڑک پہ گزرتی لڑکیاں‘ اسکول جاتی بچیاں۔ ان کے لباس سے
قطع نظر ان کو چھیڑا جاتا ہے ۔ عبایا حجاب والی بھی ریپ ہوتی ہے ‘ اور آٹھ
سال کی فراک والی بچی بھی ۔ ذمہ دار کون ہے ؟کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے؟‘‘
’’کون ہے ؟‘‘
’’کچھ لوگ وکٹم کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ضرور لڑکی نے کچھ کیا ہو گا ۔ اسے
وکٹم شیمنگ کہتے ہیں جو شدید قابلِ مذمت رویہ ہے ۔کچھ لباس کو ‘ کچھ معاشرے
میں پھیلی فلموں اور پورنو گرافی مٹیریل کو جو مردوں کا اخلاق خراب کر رہا
ہے ۔مگر میں ان سب کو غلط سمجھتی ہوں۔‘‘
’’کیونکہ جب قتل ہوتا ہے تو آپ لوگ مقتول کو قصوروار ٹھہراتے ہو ؟ کہ شاید
مقتول کے لباس نے قاتل کو اکسایا ہو۔ یا شاید معاشرے میں پھیلی تششد انگیز
ویڈیو گیمز نے قاتل کو ایسا بنایا ہو ۔ نہیں نا ۔ آپ قاتل کو قصوروار
ٹھہراتے ہو۔کیونکہ ’قاتل ‘ خود گناہگار ہوتا ہے ۔ اسی معاشرے میں باقی ہم
سب بھی رہتے ہیں۔سب تو قاتل نہیں بنتے ۔ سب تو کسی کو مارنے نہیں لگ جاتے ۔
ہاں تششد انگیز ویڈیو گیمز اور فلمیں اچھی نہیں ہوتیں مگر ہر ایک تو ان کے
باعث قاتل نہیں بن جاتا نا ۔ ایسے ہی اچھے برے لباس سب پہنتے ہیں۔ ہم میں
سے ہر مرد تو عورتوں کو ہراس نہیں کرنے لگ جاتا ۔ ایسے میں قصوروار کون ہوا؟
صرف وہ مرد جو ہراس کر رہا ہے۔ صرف وہ مرد ۔وہی قصوروار ہے ۔ مگر پھر بھی
عورتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کو خاموش رکھا جاتا ہے۔ ان کو
خوف کی وجہ سے گھروں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ مذمت اس کی کرنی چاہیے ۔ جو
یہ سب کرتا ہے۔ جس کا قصور ہوتا ہے۔ وکٹم کے لباس کو وجہ بنا کے ہراسر کے
عمل کو جسٹفائی نہیں کرنا چاہیے ۔ ہم قتل کو جسٹفائی نہیں کرتے تو ہراس منٹ
کو کیوں کرتے ہیں؟ ایک بچی ریپ ہوتی ہے تو لوگ ماں باپ سے لے کر بچی کے
لباس تک کو پہلے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔یہ غلط رویہ ہے۔ گناہگار کو
الزام د دینے کی عادت ڈالیں۔ وکٹم کو نہیں۔آپ لوگوں کو اس کے بارے میں
سوچنا ہو گا۔
میں سوچتی ہوں تو میرے اندر خوف کی لہر دوڑتی ہے کہ ۔ آج کی عورت اپنے گھر
تک میں محفوظ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں عورت
میلوں اکیلے سفر کرتی تھی اور کسی میں آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں
ہوتی تھی۔ اور اب وہی ملک جو اسی اسلام کے نام پر بنا ہے جس نے عورت کو عزت
دی ہے۔ اسی معاشرے میں عورت چار قدم اکیلے سفر نہیں کر سکتی۔ اپنے ساتھ
ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتی۔ کیونکہ اس پر، اس کے سینے پر
نفرت اور تنقید کے تیر چلائے جاتے ہیں۔ انہی کو لہو لہان کردیا جاتا ہے۔
اب عورتوں کو تنقید کی پرواہ کیے بغیر فوراً ردعمل شو کرنا ہو گا۔ ہمیں
ہراس منٹ کے خلاف لڑنے کے لیے shame (شرم) کو اس ساری ایکوئیشن سے نکالنا
ہوگا۔ اگر سڑک پہ کسی نے چھوا ہے تو مڑ کے اس پہ اسی وقت حملہ کرو۔ اپنے
پرس سے مار یا ہاتھ سے’ مگر اس کو برابر کا جواب دو۔”
“اگر بس میں کوئی تنگ کرے تو لوگوں کو اکٹھا کرو۔ اگر آفس میں کوئی ہراس
کرے تو نوکری یا شرم’ کی پرواہ کیے بغیر آسمان سر پہ اٹھا لو۔ آپ کو اگر
ہراس منٹ سے کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ فوراً اس وقت آواز اٹھانا ہے۔”
“بعض اوقات لڑکیاں کئی کئی سال بعد آکے بتا رہی ہوتیں ہیں کہ فلاں شخص نے
ان کو ہراس کیا تھا۔ آپ تنقید کرنے والوں یا ان لوگوں کی طرح نہ بننے۔ جو
کہتے ہیں کہ اس وقت کیوں خاموش رہیں۔ نہیں آپ کو نہیں معلوم کہ عورت کی
کتنی مجبوریاں اور خوف اسے خاموش رکھتے ہیں’ لیکن آپ کو اب خاموشی توڑنی
ہوگی۔”
"ہراسمنٹ یا کسی بھی ظلم کو خاموشی سے برداشت کرنا بزدلی ہے- اس کے خلاف
آواز اٹھنا بہادری ہے- اور اس پہ راضی ہو جانا بد چلنی ہے-"
خدارا! عورتوں کی عزت کیجیے۔ صرف کہنے کی حد تک ہی نہیں بلکہ دل سے، اپنی
نگاہوں اور کردار سے اس کو ثابت کیجیے۔ عورت کے کردار پر یا اس کی تربیت پر
بےجا تنقید کرنے سے پہلے ان کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ وہ عورت بے
شرم نہیں ہے جو مردوں کے ساتھ کام کرتی ہے اور نا ہی وہ عورت بیکوارد ہے جو
اس سب سے دور رہتی ہے یا خوف کھاتی ہے۔ عورت کو جسم کے یا جنس کے لحاظ سے
دیکھنے کی بجائے اس کی کوشش اور دماغ کو دیکھیں۔ اس کو تنقید کا موضوع مت
سمجھیں ۔۔۔۔۔ |