تعلیم حاصل کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے تا کہ اسے
زندگی گذارنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنہ نہ کرنا پڑے کیونکہ تعلیم ہی
انسان کو با شعور اورزندگی گزارنے کا طریقہ سیکھاتی ہے۔تعلیم ایک ایسا
ہتھیار ہے جسے ہر انسان لے کرظلم کے خلاف،جھالت،نا انصافی اور ہر برے نظام
سے لڑ سکتا ہے۔جن قوموں نے تعلیم کو ہتھیار بنایاتاریخ گواہ ہے کہ ان قوموں
نے ہمیشہ ترقی کی ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم فراہم کرنا ایک پیسے کمانے کا
دھندا بن چکا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کے نوجوانوں سے فرمایا’’آپ تعلیم پر پورا
دھیان دیں۔اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ہماری
قوم کے لیے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔ سرکاری اعداد و شمار کے
مطابق ملک بھر میں دو لاکھ تیس ہزار سے زائد اسکول ہونے کے باوجود اب بھی
بائیس ملین (22 million)سے زائد بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔اس کی
وجوہات میں سے اہم وجہ غربت اور نا مناسب نصاب ہے۔
ہمارے ملک میں جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے ہی تعلیمی
اداروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جن میں سے کچھ ریجسٹر ڈ ہیں اور
کچھ نہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق حیدرآبادکے صرف ایک سوگیارہ(۱۱۱)تعلیمی ادارے
حیدرآباد بورڈ اف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میں ریجسٹرڈ ہیں۔مگر
افسوس کی بات یہ ہے کے تعلیمی ادارے تو کھل رہے ہیں مگردراصل وہ ایک تجارتی
مرکز ہیں جہاں معصوم عوام سے تعلیم کے نام پر بھاری بھاری فیس وصول کی جاتی
ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے اسکول کی ماہانہ فیس بھی دو(۲) سے تین(۳) ہزار ہے اور
اگر بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی بات کی جائے جہاں بڑے بڑے تاجروں اور افسران
کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان اداروں کی ماہانہ فیس چھ(۶)ہزار سے شروع
ہوتی ہیں۔آج کل تو کاپی ،کتابیں،اسٹیشنری اور وردی بھی ان ہی کی دکان سے
لینی پڑتی ہیں۔
اگر ان تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کی بات کی جائے تو وہ بھی اتنا کوئی
خاص نہیں ہے اساتذہ بھی غیر معیاری ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کی تعلیم
انٹرمیڈیٹ ہوتی ہے اور ان تعلیمی اداروں میں پڑہایا جانے والا نصاب بھی
کافی غیر ضروری ہوتا ہے جسے پڑہنے سے انسان کا ذہن کھلنے کے بجائے اور
کمزور ہوجائے۔ ہمارے دور میں تو نرسری اور KGکے بعد ہی پہلی جماعت میں چلے
جاتے تھے اورآج کل تو پتہ نہیں کتنی جماعت پڑہنے کے بعدپہلی جماعت میں
بھیجتے ہیں۔یہ سب پیسہ کمانے کا بہانہ ہے۔انہی اداروں میں شام کو
کوچنگ،لینگویج،اور شورٹ کورسز کی کلاسز چلائی جاتی ہیں۔ جہاں صرف وقت پورا
کیا جاتا ہے۔ایسے ہی وہ ادارے جہاں اینٹری ٹیسٹ کی تیاری کروائی جاتی ہے آج
سے چند سالوں پہلے دیکھیں تو تمام طالب علم اپنے گھروں میں ہی ٹیسٹ کی
تیاری کرلیتے تھے اور اب تو یہ فیشن بن چکا ہے۔گورنمنٹ تعلیمی اداروں کا
ہال یہ ہے کہ کبھی اساتذہ کی غیر حاضری کی وجہ سے طالب علم غیر حاضر تو
کبھی طالب علم کی غیر حاضری کی وجہ سے اساتذہ غیر حاضر۔ اساتذہ گھر بیٹھے
تنحواہ وصول کر رہے ہیں ادارے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں روبوٹ
بنائے جا رہے ہیں جنہیں اپنا دماغ استعمال کرنا نہیں آتا۔ٹیچرز کہتے ہیں جو
کتاب میں لکھا ہے یہی صحیح ہے اسی میں سے امتحان آئے گا یوں اچھا خاصہ طالب
علم جو سیکھنے اور کھوجنے کی نیت سے ادارے میں آتا ہے اور وہاں سے رٹو طوطا
بن کر نکلتا ہے۔اس بیچارے طالب علم کو نہ چاہتے ہوئے بھی رٹا سسٹم قبول
کرنا پڑتا ہے۔
|