پانچ سے سولہ برس کے بچوں کو تعلیم کی مفت فراہمی
ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کا اقرار آئینِ پاکستان کی شق 25اے میں درج ہے۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی،
اس کی سب سے اہم اور بڑی وجہ حکومتوں کی ترجیحات ہیں۔ حکومتیں اپنے طور پر
شرح خواندگی میں اضافے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں، بعض اوقات دعوے زیادہ ہو
جاتے ہیں اور عمل کی نوبت نہیں آتی۔ ایسی ہی ایک کوشش میاں نواز شریف کی
وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں ہوئی، پنجاب میں ابھی تک میاں شہباز شریف کا
ظہور نہیں ہوا تھا، تب مسلم لیگ کے ایک کارکن مزاج کے رہنما غلام حیدروائیں
کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ انہی کے دور میں پنجاب میں ’’پنجاب
ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ یہ خود مختار ادارہ صوبہ بھر میں
سکول کی عمارت بنانے کے لئے قرضہ فراہم کرتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ بھی وہی
ہوا جو دیگر منصوبوں کے ساتھ ہوتا ہے، کچھ سکولوں کو قرضہ دیا گیا، قرض کی
واپسی کا معاملہ بھی ٹھنڈا ہی رہا،بہت جلد خاموشی چھا گئی، فاؤنڈیشن کا
وجود تو قائم رہا، مگر غیر فعال۔ مکمل ایک عشرہ خاموشی کے بعد 2005ء کے
اواخر میں چوہدری پرویز الہٰی کے دور میں پیف کے تنِ مردہ میں جان ڈالی گئی۔
پنجاب حکومت کے ایک نیک نام افسر ڈاکٹر اﷲ بخش ملک کو اس کا ایم ڈی اور
شاہد حفیظ کاردار کو چیئرمین بنایا گیا۔ اب سکول کی عمارت کے لئے قرضہ نہیں
دیا جانا تھا، بلکہ بہت کم فیس والے پرائیویٹ سکولوں کو فیس کی ادائیگی کا
بندوبست کیا گیا۔ طے پایاکہ پیف سے الحاق شدہ کوئی سکول زیر تعلیم بچوں سے
کسی بھی مد میں ایک روپیہ بھی وصول نہیں کرے گا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹرملک نے خود پنجاب بھر کا سروے کیا، درجن بھر سکولوں کے
ساتھ الحاق کیا گیا۔ منصوبہ نہایت کامیاب رہا، اس کے پیچھے نیک نیت افسران
کی محنت تھی۔ مانیٹرنگ کے سخت قوانین بنائے گئے، مانیٹرنگ کرنے والے کو
سکول میں پانی تک پینے کی اجازت نہ دی گئی۔ سال میں دو مرتبہ امتحان لیا
گیا۔ ٹیچرز ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت بھی پہلے سے زیادہ جوش
وخروش سے جاری ہے۔ پھر کیاتھا فیز پر فیز شروع ہوئے ، تین سو روپے فیس ملتی
تھی، اس سے زیادہ فیس لینے والے سکول بھی شامل ہونے لگے۔ ابھی یہ پودا جڑ
پکڑ ہی رہا تھا کہ حکومت تبدیل ہوگئی۔ چوہدری پرویز الہٰی کی جگہ میاں
شہباز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اپنے مزاج کے مطابق انہوں نے ہر اُس کام کو
ختم کرنے کی کوشش کی جوپرویز الہٰی کویاد کئے جانے کا ذریعہ بنتا ہو۔ پیف
کو بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنا، مگر کامیابی نہ ہو سکی، تاہم اس ہنگام میں
چیئرمین اور ایم ڈی کو رخصت کردیا گیا۔ بعد ازاں فیز تو آتے رہے، مگر ایم
ڈی تبدیل ہوتے رہے، کسی نے بھی ڈاکٹر اﷲ بخش ملک کی طرح دلچسپی لے کر پیف
کی گاڑی کو نہ چلایا۔ حتیٰ کہ شہباز حکومت نے چیئرمین بھی ایک ایم پی اے (راجہ
قمرالاسلام) کو لگا دیا، پیف پر سیاست کی چھاپ لگنے لگی، انگلیاں اٹھنے
لگیں۔ یہ وہی راجہ صاحب ہیں جنہیں الیکشن مہم کے آغاز میں ہی نیب نے گرفتار
کرلیا تھا، ان پر صاف پانی کمپنی کرپشن کا کیس تھا۔
پیف سخت قوانین اور بہتر مانیٹرنگ کی وجہ سے بہترین ادارے کے طور پر کام کر
رہا ہے، مگر پارٹنرز (سکولوں) کے ساتھ دفتر کا رویہ بہت حد تک نامناسب ہے،
انہیں ماتحت ہی تصور کیا جاتا ہے، ان کی بہت معمولی غلطی یا کسی کی غلط
شکایت پر لاہور طلب کیا جاتا ہے ، (حالانکہ جنوبی پنجاب کے لئے ملتان میں
بھی فاؤنڈیشن کا دفتر قائم ہے، مگر پارٹنرز کو راجن پور سے بھی لاہور ہی
جانا پڑتا ہے)۔ معاملہ طلب کئے جانے پر ہی ختم نہیں ہوتا، بھاری جرمانے
معمول بن چکا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ جو کچھ تبدیلیاں وغیرہ کی جائیں گی،
وہ تعلیمی سال کے آغاز میں کردی جائیں گی، مگر اس سال اگست میں آکر احکامات
جاری ہوئے ہیں کہ چھٹیوں کے بعد ہونے والے داخلے نہیں کئے جائیں گے، کیواے
ٹی میں پیک (پنجاب ایگزیمینیشن کمیشن) کا رزلٹ شامل نہیں کیا جائے گا، کیو
اے ٹی کا آغاز نومبر میں ہو جائے گا، (اس سے امتحان کی تیاری کے لئے بہت ہی
کم وقت میسر آئے گا)۔ یہ اعلان بھی اچانک کیا گیا کہ ہائرسیکنڈری کی کلاسیں
ختم کر دی جائیں، پیف ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ
حکومت نے تین ہزار سے زائد سرکاری پرائمری سکول جن سے محکمہ تعلیم مایوس ہو
چکا تھا، پیف پارٹنرز کے حوالے کر دیئے، جہاں پچاس بچے نہیں تھے، اب ایک
سال میں وہاں دو سو سے زیادہ بچے ہیں۔پیف کے قیام کے دس برس میں صرف تین
دفعہ فیس میں اضافہ ہوا ہے، دو مرتبہ پچاس پچاس روپے اور ایک دفعہ سو روپے،
اب بھی تین برس مکمل ہو چکے ہیں، فیس جوں کی توں ہے، جبکہ سکول والوں کو
بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اخراجات پورے کرنے مشکل ہو چکے ہیں۔ پہلے
پہلے پیف کے سکولوں کو مہینے کے آغاز میں پے منٹ ہو جاتی تھی، وقت کے ساتھ
ساتھ تمام سکولوں اور ان کے بچوں کا ریکارڈ آن لائن ہوگیا، اب تمام ڈیٹا
پوری تفصیلات کے ساتھ فاؤنڈیشن کے پاس موجود ہے، ہر ماہ مقررہ تاریخ کو
بچوں کی سٹیٹ منٹ پیف کو بھیجی جاتی ہے۔ مگر گزشتہ سالوں سے عالم یہ ہے کہ
پانچ کی دس ہوئی، دس کی بیس اور پھر ہر مہینے کے آخر میں پے منٹ آنے لگی۔
سالِ رواں میں جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں صر ف ایک پے منٹ آئی ہے،
وہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہو کر۔ تین ماہ سے سکولوں والے پریشان حال ہیں۔
اس دوران دونوں عیدیں بھی آئی ہیں۔ سرکاری طور پر عید کے مہینے میں عید سے
قبل تنخواہیں ادا کردی جاتی ہیں، مگر پیف کے بارہ ہزار سکولوں کے فنڈز بند
ہیں۔ معمولی تنخواہ والے بلامبالغہ لاکھوں اساتذہ پریشانی کی آخری حدوں کو
چھو رہے ہیں، جن سکولوں کی عمارت کرایہ پر ہے، ان کے مالکان مکان سکول
والوں پر بے حد دباؤ ڈال رہے ہیں۔ آخر سکولوں والوں نے اپنا گھر بھی چلانا
ہوتا ہے، بہت سے ایسے ہیں، جن کے سکول کی عمارت بھی کرایہ پر ہے اور گھر
بھی۔
ضلع بہاول پور میں پنجاب بھر میں سب سے زیادہ سکولوں کا پنجاب ایجوکیشن
فاؤنڈیشن سے الحاق ہے، ان کی تعداد تقریباًایک ہزار سکول ہے، پیف سکول
مالکان جہاں سخت پریشان ہیں وہاں وہ سراپا احتجاج بھی ہیں، ان کا مطالبہ ہے
کہ سکولوں کے تحفظات فوری طور پر ختم کئے جائیں۔ پے منٹ میں فوری طور پر
اضافہ کیا جائے، آئندہ سرکاری تنخواہوں کی طرح ہر بجٹ میں اضافہ ہونا
چاہیے۔ پے منٹ بر وقت اور پوری ادا کی جائے۔ معمولی باتوں پر بھاری جرمانوں
کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ چیئرمین پیف غیر سیاسی شخصیت کو بنایا جائے۔ نئی
حکومت چاہے تو پیف کا دائرہ کار وسیع کرکے شرح خواندگی میں مزید اضافہ کر
سکتی ہے۔
|