بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب

اے میرے قائد ،آپ پر خدا کی سلامتی ہواورخدا جنت میں آپ کا مرتبہ بلند کرے،آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں انسان جب دکھی ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑتا ہے جسے اس سے پیار ہو۔ پاکستان نام کی ریاست کے باشندوں سے آپ سے زیادہ پیار کون کرے گا؟ گو میں اس قابل تو نہیں کہ آپ سے کچھ عرض کر سکوں لیکن کہوں تو اور کس سے کہوں ؟ سو میری یہ معروضات آپ کو برداشت کرنا ہی پڑیں گی ۔

اے میری قوم کے باپ ! ابھی کچھ ہی دیر میں تاریخ بدل جائے گی اور قوم آزادی کے جشن میں مصروف ہوجائے گی ۔ روزی روٹی کے سلسلے میں سعودیہ میں مقیم میرا کلاس فیلو وقاص اشرف جولائی کے تیسرے ہفتے پاکستان میں تبدیلی کے لئے اپنا حصہ ڈالنے آیاتھا۔ کچھ دیر پہلے اس نے یاد دہانی کا پیغام بھیجا ہے کہ مجھے آج رات کا کھانا اس کے ساتھ کھانا ہے ۔ کھانے پر دوسرے کلاس فیلو زطاہر ریاض قریشی ایڈووکیٹ ،سید رضوان گیلانی ، سنا ن احسان بودلہ اور روشن بوسن بھی مدعو ہیں ۔ برسوں بعد کلاس فیلوز کی ہونے والی اس ملاقات میں وقاص اشرف نے استاد محترم پروفیسرڈاکٹر مقرب اکبر کو بھی مدعو کر رکھا ہے ۔میزبان وقاص اشرف نے مجھے دیکھا تو اٹھ کر گرمجوشی سے گلے لگا لیا۔ دوسرے کلاس فیلوز نے بھی اس کی پیروی کی اور استاد محترم بھی اس غیر رسمی محفل میں تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’’کیسے ہو کلیم‘‘ کہتے ہوئے بغل گیر ہو گئے ۔

عزت مآب بابائے قوم !ہم پاکستانیوں میں ایک بری عادت یہ در آئی ہے کہ ہر محفل کو سیاسی گفتگو کا تڑکا ضرور لگاتے ہیں ۔ سو برسوں بعد ملنے والے کلاس فیلوز نے بھی ایک دوسرے سے صرف رسمی حال چال پوچھا اورسیاسی گفتگو میں مصروف ہوگئے ۔ وقاص اشرف چونکہ تبدیلی کا بہت پرجوش حامی ہے سو وہ بہت پرامید ہے لیکن گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ملکی سیاست کے بارے میں اس کی معلومات اتنی مفصل نہیں ہیں جتنی بین الاقوامی تعلقات کے ایک طالب علم اور سیاسی کارکن کی ہونی چاہئیں، لیکن بہرحال اس کی نیت اور جذبہ قابل قدرہے کہ وہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست دیکھنے کا متمنی ہے تاکہ دیارغیر سے واپس اپنے وطن منتقل ہو اور اپنے پیاروں کے درمیان زندگی گزارے ۔ رات دو بجے تک ہم گپیں ہانکتے رہے اور پھر سب اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ گئے ۔

اے میرے قائد ، چودہ اگست کا سورج طلوع ہوچکا ہے ، میں خلاف معمول آج دیر تک سوتار ہا ۔ دن چڑھے آنکھ کھلی تو منہ پر چار چھینٹے مار کر باہر نکل آیا۔ پیٹ کا دوزخ بجھانے کے لئے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا اورسڑک کنارے رکھے تخت پوش پر جا براجا۔ تخت پوش پر سرخ قالین پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے میں بے خیالی میں سڑک پر نظریں جمائے بیٹھا ہوں۔رات کی گفتگو کے حوالے سے سوچ رہا ہوں کہ اب شائد اس ملک کے عوام کی دعائیں سنیں جائیں اور وطن کے حالات سدھر جائیں۔ یہ ویسا ہی بن جائے جیسا کہ آپ نے سوچا تھا لیکن زمینی حقائق پر نظر دوڑائیں تو ایک شعر ذہن میں گونجتا ہے ۔
ـُـ؂ کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے ۔

سڑک پر ٹریفک چل رہی ہے ، ایک باریش جوان سرپر عمامہ سجائے موٹرسائیکل پر غلط سمت جارہا ہے حالانکہ صرف چند گز کے فاصلے پر یوٹرن موجود ہے ۔یہ موٹر سائیکل سوار اکیلا نہیں بلکہ ہر چند منٹ بعد کوئی موٹر سائیکل یا رکشہ اسی کے نقش قدم پرآرہے ہیں ۔ ابھی ایک کار سڑک کنارے آکر رکی ہے ، اس کے دروازوں پر ایک نومنتخب رکن پنجاب اسمبلی کے خوبصورت سٹکر لگے ہیں ، ڈرائیور نے یہ زحمت نہیں کی کہ سڑک سے ہٹ کر خالی جگہ پر گاڑی کھڑی کرے بلکہ سڑک کی ہی ایک لین پر قبضہ کر لیا ہے۔ جس ہوٹل پر میں بیٹھا ہوں اس نے فٹ پاتھ اور سرکاری زمین پراپنے گاہکوں کے لئے میز کرسیاں اور تخت پوش رکھ کر قبضہ جما لیا ہے۔کچھ فاصلے پر کچھ ریڑھی والوں نے حسب توفیق سڑک پر ہی اپنے روزگار کا بندوبست کیا ہوا ہے۔سڑک پر آنے والے ہر دوسرے موٹرسائیکل پر سوار من چلوں کے ہاتھ میں کان پھاڑ دینے والے باجے ہیں اور وہ بغیر وقفے کے اپنے پھیپھڑوں کی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں گویا آزادی صرف باجے بجانے کی ہے ۔ انہیں موٹر سائیکلوں کے بیچ ایک گاڑی چلی آرہی ہے جس پر دس پندرہ نوجوان سوار ہیں اور وہ دیوہیکل قسم کے سپیکرز پر چلنے والے میوزک پر رقص کر رہے ہیں ۔ بے ہنگم شور سے میرے کان پھٹنے لگے تو میں بے دلی سے اٹھا اور موٹر سائیکل پر بلامقصدایک طرف نکل پڑا۔

سڑک کنارے جا بجا کوڑے کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر دھرے ہیں۔ ایک جگہ خاکروب پر نظر پڑی تووہ جھاڑو سے کچرے کو سڑک کے درمیان پھیلا رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک وسیع چوراہا ہے۔ حکومت نے اس گول چوک پر سڑک کے بیچ و بیچ بڑی خوبصورتی سے سبزے اور پودوں سے بھرا ایک دائرہ کھینچ رکھا ہے۔ لیکن اس وسیع چوراہے کی وسعت تنگ دامنی کا شکار ہو چکی ہے ۔ دہی بھلے والا اپنی ریڑھی سجا چکا ہے ،ساتھ ہی شوارمے والا موجود ہے ۔ چند فٹ جگہ پر اخبار والے نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔ بیس پچیس فروٹ کی ریڑھیاں بھی عین سڑک کے اوپر موجود ہیں ۔عین چوک میں ایک ریسٹورنٹ والے نے فٹ پاتھ سمیت سڑک کنارے خالی جگہ پر میز کرسیاں سجا دی ہیں ۔ چند گز دور ایک بہت بڑا شاپنگ مال ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی برانڈز کی مختلف مصنوعات ملتی ہیں ۔ مال والوں نے ساتھ موجود ایک خالی پلاٹ کو پارکنگ بنا دیا ہے لیکن لاکھوں روپے کی گاڑیوں میں آنے والے امیر زادے اور بیگمات دس بیس روپے خرچ کر کے گاڑی پارکنگ میں لگانے کی بجائے مال کے عین سامنے ڈرائیور سے کہتے ہیں تم یہیں سڑک پر رکو میں ابھی آئی۔شاپنگ مال سے چوراہے تک رکشوں کی ایک طویل قطار اس کے علاوہ ہے ۔

چوراہے کے عین درمیان سبزے پر دو عمر رسیدہ افراد وہیل چیئرز پر بیٹھے،سگریٹ کے کش لگاتے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ڈاکٹری نسخے آنے جانے والوں کو دکھا رہے ہیں ۔ خیرات کرنے میں سخاوت کے لئے مشہور اس قوم کے فرد جب ان کو دس بیس روپے دینے کے لئے سڑک کے عین بیچ جب بریک لگاتے ہیں تو پیچھے سے آنے والی ٹریفک کے ہارن کان پھاڑنے والی آواز میں احتجاج کرتے ہیں۔ چوراہے پر موجود ٹریفک وارڈن اس ساری صورت حال سے بے نیاز اپنی کار کوسڑک پر روک کر مناسب شکار کو روک لیتے ہیں۔سرکار کے یہ کارندے اس شکار سے اپنی روزی پاتے ہیں ، بصورت دیگر اس کا چالان کر دیا جاتا ہے ۔ چوراہے کے ایک طرف ایک نجی کالج کی عمار ت ایستادہ ہے ۔ کالج والے بھی سڑک اور کالج کی عمارت کے درمیان زمین کے ٹکڑے کو اپنے پیارے وطن کی ملکیت جان کر اس کا بہترین استعمال کرر ہے ہیں۔

اے میرے قائد ،مجھے آپ کا دور دیکھنا نصیب نہ ہوا،آپ کی قانون پسندی اور قومی خدمت کے قصے کتابوں میں ہی پڑھے ۔ آج ستر برس کے بعد یوم آزادی کے دن آپ کے وطن کی ایک سڑک پر بے مقصد گھومتے ہوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ قبضہ گیروں کی اس قوم نے ووٹ دینے کے بعدتبدیلی کی ساری ذمہ داری سترہ اگست کو وزیر اعظم منتخب ہونے والے عمران خان پر ڈال دی ہے ۔ نہایت ادب کے ساتھ پوچھنا آپ سے یہ ہے کہ ان حالات میں تبدیلی ممکن ہے ؟امید ہے آپ اس نازچیز کی رہنمائی فرمائیں گے ۔
والسلام ۔آپ کا خیراندیش
خواجہ محمد کلیم

Khawaja Kaleem
About the Author: Khawaja Kaleem Read More Articles by Khawaja Kaleem: 46 Articles with 33113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.