پھلجھڑی -- ہمارے یہاں بچے شب برات وغیرہ میں استعمال
کرتے ہیں اور اس سے نکلنے والی مختلف روشنیاں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں -
صنعتی کارخانوں میں لوہے کی موٹائی وغیرہ کم کرنے کے لئے ایک خاص قسم کے
پتھر کے گول پہئیے کو گھماتے ہیں اور لوہا اس سے گھستے ہیں تو ایسی ہی
پھلجھڑی کی طرح چنگاریاں نکلتی ہیں - عید قربان کے موقع پر چاقو ‘ چھریاں
تیز کر نے والے ایک سائیکل پر یہ پہیہ لگا کر گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں
اور چاقو چھریاں تیز کرتے ہیں -
ہمارے استاد صاحبان ہمیں کہتے تھے ہر چنگاری کا رنگ ‘ اس کی چمک ‘ اس کی
لمبا ئی ‘ لوہے کی ذات یعنی قسم کو ظاہر کرتا ہے -اس کے خاندان کا پس منظر
بتاتا ہے - زندگی میں بھی کئی واقعات ہوتے ہیں جس پر غور کیا جائے تو
پھلجھڑی کے رنگوں کی طرح مختلف ذہنوں کی عکاسی ہوتی ہے یا معاشرے کے مختلف
پہلو آشکارہ ہوتے ہیں -
آج ایسی ہی پھلجھڑیوں کی پہلی قسط کے ساتھ حاضر ہوں
“کتھے نے ساڈھے عرب شریف دے بندے -اُنّھاں نو بلاؤ تو صحیح - اُنّھاں دی
زیارت کرئیے"
=================
1971 کا زمانہ تھا - میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں تھرڈ ایر میں پڑھ
رہا تھا - میرا ایک روم میٹ فرسٹ ایر کا طالب علم تھا جو پنجاب کے ایک دور
دراز گاؤں سے تعلق رکھتا تھا - - اس نے ہوسٹل میں اردن وغیرہ کے طالب علم
دیکھے تو جا کر اپنے گاؤں میں تذکرہ کیا - اس کے چچا بڑے متاثر ہوئےاور ایک
دن بغیر بتائے گاؤں سے لاہور پہنچ گئے اور ہوسٹل بھی تشریف لے آئے -
بھتیجا حیران ہوا لیکن کچھ کہا نہیں -
ابھی باتیں شروع ہی ہوئی تھیں کہ چچا نے صدا بلند کی " “کتھے نے ساڈھے عرب
شریف دے بندے -اُنّھاں نو بلاؤ تو صحیح - اُنّھاں دی زیارت کرئیے"
( تمہارے ساتھ جو عرب شریف کے بندے پڑھتے ہیں کہاں ہیں -انہیں بلاؤ تو سہی
-ان کی زیارت کرلوں "
میرے روم میٹ بھاگے بھاگے گئے اور دو تین اردن کے طالب علموں کو لے آئے -
وہ اردنی اس حلئے میں آئے تھے کہ ایک ہاتھ میں تھری کیسل سگریٹ کی ڈبیہ اور
ماچس اور دوسرے ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ تھی - انہوں نے شب خوابی کا لباس
پہنا ہوا تھا یعنی ایک پاجامہ اور اوپر ایک بش شرٹ -
چچا کو ایک جھٹکا سا لگا - وہ سمجھ رہے تھے کہ عرب شریف کے بندے اپنے مخصوص
لمبی عبا میں ہونگے اور سر پر ڈوری والا کپڑے کی رومال نما ٹوپی ہو گی -
لیکن یہاں تو کوئی ایسا قصہ نہ تھا -
خیر چچا جی نے بڑی مشکل سے اردو میں کہا “ ہمارے دل میں آپ کا بہت ادب و
احترام ہے “ اردنی طالب علم کچھ نہ سمجھ سکے - تب بھتیجے نے کہا “ایھ
انگریزی سمجھتے ہیں -اردو نہیں جانتے “
چچا کو مایوسی ہوئی اس لئے زیادہ بات آگے نہیں بڑھائی- تھوڑی دیر یہاں وہاں
کی باتیں ہوئیں - چچا کی دلچسپی کم ہوگئی - چنانچہ عرب طالب علم بھی رخصت
ہوئے اور چچا جی کو حیرت میں چھوڑ گئے
بچہ پنجابی بول رہا ہے - آہستہ آہستہ اردو سیکھ لے گا
=========
بیگم کے ایک رشتے دار کسی سرکاری محکمے میں افسر تھے - شروع ہی سے کراچی
میں تعینات تھے - میں اپنی بیگم کے ہمراہ ان کے گھر گیا - محکمے کی جانب سے
انہیں محکمے کی کالونی میں گھر مہیا کیا گیا تھا - وہ رشتے دار تو کہیں
باہر نکلے ہوئے تھے البتہ گھر میں ان کی اہلیہ تھیں -
میری بیگم ان سے باتیں کر نے لگیں - میں وقت گزاری کے لئے باہر آگیا -
انہوں نے ایک دیہاتی لڑکا بچوں کی دیکھ بھال کے لئے نوکر رکھا تھا
اس نوکر لڑکے کا انتظام میںنے ہی کیا تھا -وہ پہلے ہمارے گھر میں ہی کام
کرتا تھا
رشتے دار کے بچے پڑوس کے بچوں سے کھیل ر ہے تھے -پڑوسی بچوں کے والد ابھی
کسی چھوٹے شہر سے تبدیل ہو کر یہاں آئے تھے - میں بھی دیکھنے لگا
رشتے دار کے بچے نے کہا میری شرٹ کا رنگ تو بلیک ہے
پڑوس کے بچے نے جواب دیا میرے پاس بھی کالی قمیض ہے
نوکر لڑکے نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ پڑوسی بچہ پنجابی بول رہا ہے -
آہستہ آہستہ اردو سیکھ لے گا
آبی مخلوق کہاں ہے
===============
پاکستان مین پریشانی کے عالم میں جب کسی سنیاسی بابا ( یا بقول ابن انشاء
ستیا نا سی بابا ) کے پاس لوگ پہنچتے ہیں تو بابا انہیں حکم دیتا ہے کہ تین
دن تک آبی مخلوق کو کھانا کھلاؤ ---
اب ڈھنڈھیا پڑتی ہے کہ کہاں ہے آبی مخلوق -
کراچی یا دیگر دریا نہر کے کنارے شہروں میں تو یہ مسئلہ زیادہ نہیں ہوتا
لیکن کئی شہروں میں یہ مسئلہ مسئلہ کشمیر بن جاتا ہے - پریشان صاحب یا
صاحبہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے
اسٹیل ٹاؤن کراچی میں ایک بڑی جھیل انتظامیہ نے بنائی ہوئی ہے - اس میں
بطخیں بھی چھو ڑی گئی ہیں - انتظامیہ نے پابندی لگائی ہے کہ ان کو گھر سے
بنا کر لائی ہوئی چیز نہ کھلائی جائے - کئی لوگ میلوں میل فاصلہ طے کر کے
پہنچتے کہ با با کی تمنا ہے کہ آبی مخلوق کو کھانا ڈالا جائے چاہے عزت جائے
چاہے پیسہ جائے چنانچہ آبی مخلوق کو کھلانے کے چکر میں گارڈز کے ہاتھوں
شرمندہ ہوتے ہیں |