قربانی و ذبیحہ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنی پرانی
اس دنیا میں انسان کے پرستش یا عبادت کرنے کی تاریخ ہے. روئے زمین پر اس کا
آغاز خدائے واحد کی خاص پاک ذات کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے دست مبارک
سے ہوا. اللہ جل شانہ کی ذات پرجمال و جلال ہی اس شان اور عظمت سے متصف ہے
کہ وہ جو بڑا بے نیاز و بے پرواہ ہے اور سب کچھ حقیقت میں اسی کا ہے کہ اس
کے نام پر اپنی کوئی قیمتی عزیز شے نچھاور کی جائے اور یہ بڑی سعادت کی بات
ہے.
وقت گذرا اور پھر گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی اور شیطانی عمل دخل نے
عقل انسانی کو جکڑنا شروع کیا. شرک ایجاد ہوا اور غیر معبود یعنی بتوں کی
پوجا ہونے لگی. حتی کہ بتوں کے لئے چڑھاوے چڑھانے اور خون بہانے کی رسم بھی
ادا ہونے لگی اور اتنا رواج پا گئی کہ اصل معنی میں خالص قربانی ابتدائے
زمانہ میں تقریباً معدوم ہو گئی.
پھر تاریخ میں جدّ انبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام وہ پاکیزہ
سپوت توحید ہیں کہ جنہوں نے وحدہ لاشریک ذات کے حضور قربانی کی عظیم روایت
و رسم کا بطور عبادت احیاء فرمایا. حضرت کو طویل بے اولادی کے بعد پیرانہ
سالی میں اولادنرینہ کا تحفہ قادر مطلق کی جناب سے عطا ہوا. پھر آپ الہام و
روءیا سے اشارہء ایزدی پا کر اپنی اس قیمتی اولاد یعنی اکلوتے فرمانبردار
بیٹے حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام جو جدّخاتم النبيين بھی ہیں انہیں
بارگاہِ یزداں میں حسب دستور زمانہ قربان کرنے کے لئے پیش کردیتے ہیں اور
توفیق الہی سے اس امتحان میں کامیاب ہو گئے. یہی نہیں بلکہ اس واقعہ کے بعد
بطور انعام دوسری زوجہ کے پاک بطن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دوسرے
فرزند یعنی بنی اسرائیل کے بانی حضرت اسحاق علیہ السلام عطا کئے گئے. پھر
زمانے گذرے، اسلام آیا، باطل معدوم ہو گیا اور حق باقی رہ گیا. لیکن یہ
ابراھیمی جذبہ قربانی بارگاہِ حق تعالٰی شانہ میں ایسا مقبول ہوا کہ نبوت
کے آخری سپوت صاحب لولاک علیہ التحیۃ والسلام کے لائے ہوئے دین "اسلام" اور
اسلام کے پیروکاروں کو اس ذبیحہ قربانی یعنی "سنت ابراہیمی" کی روایت کی
پاسداری کی امانت ہمیشہ کے لئے تاقیامت سونپ دی گئی.
لیکن طاغوت کی کوشش البتہ ہر زمانے میں یہ رہی کہ اسلامی تہذیب اور شعائر
کے چراغ کو پھونکوں سے مٹادیا جائے. وقتاً فوقتا اسلامی شعائر کے نظام پر
حملے کئے جاتے رہے ہیں اور اب سنت ابراہیمی یعنی"ذبیحہ و قربانی" بھی اس سے
مستثنٰی نہیں رہی.
جیسا کہ آجکل سوشل میڈیا اور ٹاک شو،ز پر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کہیں عید
الاضحٰی کی قربانی پر غریبوں کی مدد کرنے کو مقدم کرنے کا واویلا مچا رہے
ہیں تو کہیں تقسیم گوشت میں اہلیان قربانی کے نامناسب رویہ پر دکھی
داستانیں سناکر بڑی افسوسناک افسانوی تصویر کشی کی جاتی ہے. کبھی اسے خود
ساختہ مذہبی پابندی قرار دیا جاتا ہے اور کبھی سرزمین حرم پاک تک محدود
مقامی عبادت ہونے کا فتوی صادر کیا جاتا ہے، بلکہ یہاں تک کہہ ڈالتے ہیں کہ
فی زمانہ اس کی ضرورت ہی نہیں رہی! نعوذبااللہ
اس طرح کی باتیں کرنے والے یا ایسی بات کی حمایت کرنے میں عموماً تین قسم
کے لوگ ہیں:
پہلے نمبر پر وہ جو در پردہ اسلام دشمن عناصر کا آلہ کار ہیں.
دوسرے وہ جن کی مغرب زدہ ڈگریوں اور امپورٹڈ طرز معاشرت نے انہیں اسلام کے
شعائر پر بے دریغ نکتہ اعتراض بولنے اور بے وفائی کرنے کا حوصلہ دیا ہے.
اور تیسرے اکثریت میں وہ لوگ جو دور حاضر کے جاہل واعظ یا مولوی حضرات کی
علمی فرسودگی سے بدظن ہو کر عقل کے ان اندھے پجاریوں کے چنگل میں پھنس جاتے
ہیں.
اگر آپ ان کی عقلی دلیلوں کا ٹھنڈے دماغ جائزہ لیں تو اسی نتیجے پر پہنچیں
گے کہ محض تنگ نظری کا شور شرابا ہے. کوئی نہیں بے یارو مددگار مرتا یا بے
گھر ہوتا معاشرے میں اس ذبیحہ قربانی کے اخراجات کے باعث، نہ ہی یہ خرچ بچا
کر آپ کسی غریب کو ابدی غربت سے بچا پائیں گے. بلکہ ہزاروں غریب چرواہے خدا
کی زمین پر بکھری بے مول خس و خاشاک کو بطور چارہ جانوروں کو کھلا کر
لاکھوں سالانہ کما لیتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کے لیے اعلٰی رزق کا وسیلہ
پیدا کرتے ہیں. کیا غریب کے لیے محنت کی کمائی خیرات لینے سے بہتر نہیں؟
کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مسلم معاشرہ کے وہ غرباء اور سفید پوش جو پورے
سال میں مہنگا گوشت کھانے کی سکت نہیں رکھتے اس قربانی کے موقع پر کم یا
زیادہ استفادہ ضرور کرلیتے ہیں. قربانی کے گوشت میں "حق" مقرر کر کے خدائے
مہربان کے شفیق نبی نے کیا مجبور و بے کس طبقے کی عزت نفس سربلند رکھنے کا
احسان نہیں فرمایا؟
کھلا چیلنج ہے کہ قربانی کے خلاف غریبوں کے درد کا رونا رونے والے خواہ ایک
دن کے لیے ہی سہی اپنے مجموعی امدادی پروگراموں سے غریب کے دسترخوان میں
کیا اس قدر وسیع پیمانے پر تبدیلی لا سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں.
غیر جانبدارانہ مشاہدات سے ہمیشہ یہی ثابت ہوا کہ خدا نے اپنی مخلوق کی
فلاح و بہبود اور انسانی حقوق کے تحفظ کو قوانین اسلام میں پنہاں کر رکھا
ہے اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی رحمدل ہستی ہی دکھی انسانیت اور
غریبوں کے درد کا حقیقی مداوا کر سکے ہیں.
وہ جو سچائی کے سچے متلاشی ہیں ان کے لئے پیغام ہے کہ اپنے اسلاف کے اسلوب
پر ہمیشہ بھروسہ رکھیں کہ جو اسلامی روایات کے باصلاحیت پاسبان اور امین
مانے گئے. ان کی روشن چراغ زندگیوں سے علم کے راستے آگاہی پانے کی کوشش
کیجئے تو خود بخود آپ کو راہ حق سے بہکانے والوں سے بےزاری ہونے لگے گی.
اور اگر جانچ پرکھ و کسوٹی کا یہ کام مشکل ہے تو پھر اسلامی عقائد و شعائر
پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کر لیں.
اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلام ایک دائمی سچا مذہب ہے اور اس حقیقت پر اس کے
ازلی نقاد اور دشمن بھی حرف نہ اٹھا سکے. اسلام ایک اعلی ترین نظام زندگی
یعنی "دِین" ہے جسے اغیار کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے بڑے پیشوا بھی جھٹلا نہ
سکے. اور جبکہ دیگر تمام جدتیں پرانی ہو کر دم توڑ دیں گی، اسلام ہی وہ
نظام دیتا ہے جو کبھی بوڑھا اور متروک نہ ہوگا اور نہ ہی اس کے مقدس شعائر
اور روایات کبھی پرانے ہوں گے. تہزیب انسانی کی ہر رُت میں اسلام سدا بہار
ہی رہے گا. |