تحریر:مریم صدیقی۔ کراچی
اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں کائنات کو تسخیر کیا جارہا ہے،
دنیا چاند پر جا پہنچی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہوچکا ہے ،وہیں
ہمارے ارد گرد ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں زندگی کی بنیادی ضروریات بھی
میسر نہیں۔ جنہیں ٹھیک طریقے سے روز دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل پاتی۔ جہاں
امیر شخص امیر تر ہوا جارہا ہے اور غریب، غریب ترین۔
اگر ہم معاشرے میں اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو ہر دوسرا تیسرا گھر ہمیں
معاشی تنگی کا شکار نظر آتا ہے۔ ہر دوسرا شخص بیروزگاری کا رونا روتا پایا
جاتا ہے۔ یہی معاشی تنگی بعض اوقات گھریلو ناچاقیوں کا سبب بنتی ہے، رشتوں
میں دوری اور دلوں میں کشیدگی کا باعث بنتی ہے، یہی گھریلو ناچاقیاں آگے
جاکر کئی گھروں میں طلاق کا سبب بنتی ہیں، یا کہیں کوئی مجبور باپ اپنی ہی
اولاد کو اپنے ہاتھوں مار دیتا ہے۔ انہی معاشی مسائل کے سبب کئی لڑکیاں باپ
کی دہلیز پر شادی کی آس لیے بوڑھی ہوجاتی ہیں کیوں کہ ان کے ماں باپ ان کے
لیے خاطر خواہ جہیز نہیں جمع کرپاتے۔
ان مسائل کا سدباب کس کی ذمہ داری ہے، کیا فقط حکام بالا کو دوش دے کر ہم
بری الذمہ ہوجاتے ہیں؟ نہیں، ہمیں اپنے لیے خود آگے بڑھنا ہوگا بحیثیت قوم
پہلا قدم ہمیں خود بڑھانا ہوگا، اگر ہم اپنے حالات کی بہتری کے خواہاں ہیں
تو بہتری کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی کہ بے شک رزق کا وعدہ اس پاک پروردگار
کا ہے لیکن کسب معاش کی ذمہ داری اس نے انسان کو سونپی ہے۔
معاشی مسائل کے اسباب:
پہلا قدم ان اسباب کی نشاندہی ہے جو معاشی تنگی کا سبب ہیں تا کہ ان مسائل
سے نبرد آزما ہونے میں مدد مل سکے۔ انسان بڑا ہی حریص واقع ہوا ہے تھوڑے پر
کفایت کرنا انسان کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ بہترین کی لالچ میں انسان
بہتر بھی گنوادیتا ہے اور قصوروار حالات کو ٹھہراتا ہے اگر ہم میں سے ہر
کوئی قناعت اختیار کرلے اور اﷲ کے دیے ہوئے رزق میں راضی ہوجائے تو اﷲ
تبارک و تعالی اسی میں برکت ڈال دیتا ہے جب کہ مزید کی حرص انسان کے مال
میں سے برکت کو ختم کردیتی ہے۔
ہر انسان کو اتنا ہی رزق ملتا ہے جتنا کہ اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
زیادہ کی خواہش میں انسان کئی بار غلط راستہ اختیار کر بیٹھتا ہے اور برائی
کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم اسے برائیوں کے دلدل میں اتار دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تقابل کا رواج عام ہوچکا ہے جو کہ حسد کو جنم دیتا ہے۔ ہر
ایک کی نظر دوسرے کے گھر پر ہے۔ ہم اپنا مقابلہ اپنے سے کمتر لوگوں سے کرنے
کے بجائے اپنے سے بہتر لوگوں سے کرتے ہیں اور ہمارے پاس موجود نعمتیں ہمیں
حقیر معلوم ہوتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر نوجوان یہ خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں
ایسی ملازمت مل جائے کہ ملازمت کے پہلے دن ہی بنگلہ اور گاڑی کی چابی ان کے
ہاتھ پر رکھ دی جائے۔ اگر ملازمت ان کی خواہش کے مطابق نہ ہو تو معمولی
تنخواہ اور بنا آسائشات والی ملازمت کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اور کوششیں
ترک کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بے جا اور فضول خرچ بھی
معاشی تنگی کا ایک اہم سبب ہے۔ ہر ماہ کچھ رقم کو پس انداز کردیا جائے تو
ضرورت کے وقت خاطر خواہ رقم موجود ہوگی۔
ذریعہ معاش کوئی بھی ہو کوئی کام حقیر نہیں ہوتا۔حدیث مبارکہ میں حلال رزق
کمانے والے کو اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے والے کو اﷲ کا دوست کہا گیا ہے۔
اگر معمولی ملازمت ہے جس میں تنخواہ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں ہے تو کچھ
عرصہ وہ کام کرکے کچھ رقم جمع کرلیں یا اسی ملازمت کے کرتے ہوئے نئی ملازمت
کی تلاش شروع کردیں۔جب تک کوئی اچھی ملازمت نہیں ملتی تب تک کوئی بھی کام
کرلیں کہ اس سے آپ کی صلاحیتوں کو زنگ نہیں لگے گا۔ آج کل کی بڑھتی ہوئی
مہنگائی سے کون واقف نہیں،اشیائے خوردنوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی
نظر آتی ہیں۔ ایسے میں ایک غریب بیچارہ دو وقت کی روٹی کا حصول جس کے لیے
مشکل ہے، وہ کیسے گزارہ کرے۔
بے روزگاری گداگری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب ہم کسی
ریڑھی والے سے، کسی پتھارے والے سے یا کسی ٹھیلے والے سے چند پیسوں کی
اشیاء نہیں خریدتے لیکن آتے جاتے گداگروں کے ہاتھ میں پیسے رکھ دیتے ہیں تو
لوگ محنت کرکے حلال رزق کمانے کے بجائے آسان راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم
بالواسطہ یا بلا واسطہ گداگروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اوراس عمل سے محنت
کش مزدوروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
سد باب:
معاشی تنگی میں بلاشبہ ایک مقام ایسا آتا ہے جب چھوٹی موٹی تکرار لڑائی
جھگڑوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔کہیں مہنگائی سے پریشان ماں باپ اولاد کے
تعلیمی اخراجات نہیں برداشت کر پاتے تو کہیں خاوند بیوی کی بے جا فرمائشیں
پوری کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ بحیثیت قوم ہماری ذمہ داری فقط حکومت اور معاشی
نظام کو برا بھلا کہنے تک محدود نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کے
سد باب کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ذہن میں سوال آتا ہے کہ میں ایک فرد
ایک قوم کی تقدیر کیسے بدل سکتا ہوں۔’’ حرکت میں برکت ہے ‘‘یہ مقولہ تو سنا
ہی ہوگا ، تو اپنی ذات سے، اپنے گھر اپنے محلے، اپنے رشتہ داروں سے شروع
کیجیے، چند مخیر حضرات کے ساتھ مل کر ایسے ضرورت مند سفید پوش لوگوں کو
تلاش کیجیے جو ضرورت مند ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔
مخیرحضرات کو چاہیے کہ اگر ان کی آمدنی بنیادی ضروریات سے زیادہ ہے تو کسی
ضرورت مند کو قرض حسنہ بلا سود کے دے دیں یااس شخص کو ان پیسوں سے کوئی کام
کروادیں۔
اپنی زکوۃ ہر سال ادا کیجیے کہ اﷲ نے آپ کے مال میں ان غریبوں ناداروں کا
بھی حق رکھا ہے اور اس طرح آپ کا مال پاک بھی ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ کے زمانے میں ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ دور آبادی تک جاتے تھے مصارفین
زکوۃ کو تلاش کرنے لیکن باوجود تلاش کے بھی کوئی ضرورت مند نہ ملتا۔ اگر
حکمران ایسا ہو جو کہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا سویا تو خدا
کی قسم عمر سے قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایسے امیر کے ہوتے
ہوئے کون بھوکا سوسکتا ہے۔ ہمیں ضرورت ہے ایک بار پھر عمر رضی اﷲ عنہ جیسے
حکمران کی۔ اﷲ سے تجارت کیجیے کہ وہ ایک کے بدلے ستر عطا کرتا ہے۔ صدقہ و
خیرات بہترین تجارت ہے۔ گھر کی عورتیں بوقت ضرورت کسب معاش میں مرد کا ہاتھ
بٹاسکتی ہیں۔ اگر آپ کے گھر کی خواتین میں کوئی بھی ہنر ہے جیسے سلائی
کڑھائی، کھانا پکانا اسے بروئے کار لائیں بنا کسی سرمایہ کاری کے آپ اس کی
ابتداء کرسکتے ہیں۔ عورت شریکِ حیات ہونے کے ساتھ اگر شریکِ معاش بھی بن
جائے تو معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے میں کافی مدد ہوجائیگی۔ عورت کا کسب
حلال اسلام کی رو سے جائز و مباح ہے۔ اسلام کی پہلی خاتون سرمایہ دار حضرت
خدیجہ رضی اﷲ تعالی عنہا ہیں۔ آپ رضی اﷲ تعالی عنہا نے اپنے مال سے تجارت
کرکے رہتی دنیا تک کہ مسلمانوں بالخصوص عورتوں کے لیے مثال قائم کی۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں لوگوں کی مدد کریں مختصر پیمانے پر ہی صحیح چند
افراد کے ساتھ مل کر کسی ایک شخص کو کوئی کام کروادیں تو ایک گھر کا چولہا
جل جائے گا۔ ہم فقط اپنے پیٹ بھرنے پر اکتفا کرتے ہیں حالاں کہ اگر کسی کا
پڑوسی بھوکا سویا اور اسے خبر نہ ہوئی تو بروز قیامت وہ اﷲ تبارک و تعالٰی
کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا۔ اگر فی الوقت کوئی ملازمت میسر نہیں ہے تو چھو
ٹے موٹے کام کرکے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اگر کم پیسے
ہیں تو کم سے شروعات کریں لیکن شروعات ضرور کریں کہ حرکت میں برکت ہے۔ چاہے
شروع میں دس روپے یومیہ کمائیں لیکن ہمت نہ ہاریں کہ کسب حلال کرنا انبیاء
کرام علیہم السلام کی سنت مبارکہ ہے۔ اﷲ کے پیغمبروں نے بھی اپنے ہاتھوں سے
کام کرنے کو حقیر نہ جانا۔ حضرت داؤد علیہ السلام زرہیں بناتے تھے، حضرت
سلیمان علیہ السلام ٹوپیاں بناتے، حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چراتے
اورنبی اکرم ﷺ تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ غرض اﷲ کے نبیوں نے بھی محنت
کی اور ہمارے لیے اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کیا۔ حرام سے بچیے، کم
وقت میں زیادہ کمانے کی اسکیم میں جن غلط راستوں ہر ہم چل پڑتے ہیں وہ
سراسر تباہی کے راستے ہیں۔ حرام کا ایک لقمہ بھی آپ کی حلال کمائی کو ناپاک
کردیتا ہے۔
الغرض اگر معاشرے سے بے روزگاری، معاشی مسائل، گداگری کا خاتمہ کرنا ہے تو
بحیثیت قوم ہر فرد کو اپنا کردار نبھانا ہوگا۔ اگر آپ کسی کی مدد کرسکتے
ہیں تو ضرور آگے بڑھیے اور اپنے حصے کا دیا جلائیے۔ اگر آپ ضرورت مند ہیں
تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں توبچوں تعلیم
و تعلم سے وابستہ ہوجائیں۔ کسی معجزے کا انتظار کیے بغیر خود آگے بڑھیں اور
اس کار خیر اپنا حصہ ڈالیں اپنی قوم کے لیے، اپنے ملک کے لیے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ |