پولیس ہمارے ملک کی عوام کی خدمت کیلئے رات دن ایک کرتی
ہے اور اسی وجہ سے انکو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ عام عوام محفوظ ہوسکیں
مگران پولیس والوں میں رشوت کارجحان ایسے بڑھا ہے کہ پولیس نے صرف ہمارے
ملک کے علاوہ اور بھی کئی ممالک میں اپنی عزت کھو رہی ہے اسی طرح واپڈا
افسران سرکاری ادارون کے افسران اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نہ کرنے کی وجہ سے
اپنی عزت ومقام معاشرے میں کھو رہے ہیں آج میں صحافت پر بات کرنا چاہتا ہوں
ہمیں ایسی صحافت کرنی چاہیے کہ دل کو محسوس ہوکہ ہم لوگوں کی خدمت کرکے
سچائی کا ساتھ دے کے عبادت کررہے ہیں نیکی کمارہے ہیں ۔ الیکشنکے دنوں میں
سب سیاستدان ایسے اپنے اپنے حلقوں کا رخ کرتے ہیں جیسے کوئی بھوکے بھیڑیا
اپنی بھوک مٹانے کیلئے شکار کی طرف رخ کرتا ہے ہرطرف الیکشن ہی کی بات
ہورہی ہوتی ہے چاہے وہ چھوٹی محفل ہویابڑی،ہوٹل ہویا نائی کی دکان سوشل
میڈیا،پرنٹ میڈیاہویا الیکٹرونک میڈیا سب کو صرف الیکشن کی ہی پڑی ہوتی ہے
ہرکوئی اپنے اپنے امیدواروں کوسپورٹ کررہا ہوتاہے جیساکہ آزادعدلیہ کسی بھی
ملک کے وقاراورعزت میں اضافہ کرتی ہے اسی طرح کسی بھی ملک کا آزاد میڈیا
کسی بھی غیرملک میں اپنے ملک کے سفیرکا کرداراداکرتا ہے وہاں اپنے ملک کے
اندربھی ایک آئینے کا کرداراداکرتا ہے آزاد عدلیہ کی طرح میڈیا کا بھی آزاد
ہونا کافی نہیں ہوتا یا کسی بھی کھیل کے ایمپائر کی طرح غیرجانبدار ہونا
بھی ضروری ہوتا ہے چونکہ اس نے حکمران اور عوام کے درمیان آئینے کا کردار
ادا کرنا ہوتا ہے اور اصل چہرے کی پہچان کروانی ہوتی ہے اسی لیے صحافی کا
غیرجانبدارہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ ایک صحافی عوام کے مسائل کواجاگرکرنے
کیلئے اور ان مسائل کے حل کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے وہ سیاسی
پارٹیوں سے ایماندار،دیانتدار،بے داغ ماضی اور اچھی شہرت والے نمائندے لانے
میں اپنا ماڈل رول اداکرتا ہے سوشل میڈیا کے دور نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ
اب ہرعام آدمی خود تجزیہ نگاراور تبصرہ نگارہے کس کو کب ننگا کرنا ہے کس کے
راز کب کھولنے ہیں سب دو منٹ کا کھیل بن چکا ہے مگرسوشل میڈیا پر
90فیصدباتیں من گھڑت ہوتی ہیں جبکہ ایک صحافی عوام تک بروقت نہ صرف
خبرپہنچاتا ہے بلکہ جیسے پہلے حکمرانوں کو ڈھیل ملتی تھی اب کے حکمرانوں
کیلئے ڈھیل ملنا خواب بن چکا ہے صرف حکمرانوں پرتنقیدکرنے سے ہی ذمہ داری
پوری نہیں ہوجاتی میڈیا کا کام عوام کو سکہ کے دونوں رخ دکھانا ہے بعض
چینلز کسی سیاسی پارٹی کو ایسے پروٹوکول دیتے ہیں جیسے اس پارٹی نے اس چینل
کولانچ کیا ہویہاں تک کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابرہے میڈیا
کی تنقیدتعمیری ہونی چاہیے اور ملکی مفاد کوہی ترجیحی دینی چاہیے خبریں
ایسی ہوں کہ لوگ اس پر اعتراض کرنے کے بجائے میڈیا کو اچھی سوچ کے ساتھ
دیکھیں نہ کہ مفروضے گھڑے جائیں ہمارے صحافی برادری میں ایسے صحافی حضرات
جنم لے رہے ہیں جو سوچتے ہیں کہ الیکشن کے دن ان سیاستدانوں اور پولیس کی
چاپلوسی کرکے اپنا مقام بنالیں گے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ یہ لوگ کئی بار
عوام کو دھوکہ دے چکے ہیں الیکشن جیت کے جاتے ہیں پھر پورے پانچ سال نظرہی
نہیں آتے تو وہ صحافیوں پر خاک ترس کریں گے ہمارے صحافی رات دن ایسے
سیاستدانوں کے گن گارہیتھے جیسے ان کے سوشل میڈیا انچارج ہوں کوئی برادری
شامل ہو کوئی ایک بندہ ایک پارٹی چھوڑ کے دوسری میں جائے تو سوشل میڈیا پر
ہمارے صحافی حضرات نے تصاویریں اپلوڈ کی ہوتی ہیں جس سے یقیناً انکی عزت
میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ معاشرے میں اپنا مقام کھورہے ہوتے ہیں الیکشن
تو خیر سے ہوگئے جس کے بعداقتدارکے بھوکے الیکشن لڑنے والے سیاسی جوکرتمام
حدیں بھول کرمیدانوں میں اترے تھے چاہیے کوئی نااہل ہی کیوں نہ تھا اس نے
نیا حربہ اپنایاکہ خود تو نااہل ہوں کیوں نہ تواپنے بیٹے یا بیوی کو الیکشن
لڑوادوں کوئی اپنی بیٹی کومیدان میں لے آیا سب جانتے ہیں کون سا سیاستدان
صادق امین ہے کون نہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی کوووٹ تودینا تھامگر افسوس
تو اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں بھی کوئی پروگرام ہو ہمارے صحافی جھنڈ کے
جھنڈ چلے جاتے ہیں میں ان پر تنقیدبرائے اصلاح کرنے کی کوشش کررہا ہوں نہ
کہہ انکی دل آزادی مگر اتنا کہوں گا کہ خبروں میں وہ چیز لکھیں جو حقیقت ہے
اگر صرف سیاستدانوں کی تعریفیں ہی لکھنی ہیں توانکے فلیکسز بنوا کے انکے
ڈیرے پہ لگا دیں آپکانام چمکتارہے گا اور اسے بھی یادرہے گا کہ یہ میراخاص
چمچہ ہے پرایک بات سوچیں آج سے 15سال پہلے نظردوڑائیں تو سیاستدان ان
صحافیوں سے ملنے کیلئے ٹائم مانگتے تھے اور کوریج کیلئے رابطے کرتے تھے مگر
اب دیکھ کے سن کے دکھ ہوتا ہے خود صحافی کال کرکے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ آپ
کی آج کی یہ نیوز چلا دیں یا جس کوسپورٹ کرتے ہیں اسے پتہ بھی نہیں ہوتا کہ
خبرگئی ہے کون سی گئی ہے شاید ہوسکتا ہے وہ خبروں کے پیسے دیتے ہوں مگر ان
حرکتوں کی وجہ سے صحافت بدنام ہورہی ہے کیونکہ میڈیا کہ جانبداری نہ ملک
کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے
میڈیا جہاں اچھے لوگوں کی روشناس کرتا ہے وہاں برے لوگوں کی نشاندہی کرنا
بھی میڈیا کافرض ہے۔عوام سے توکوئی نہیں ڈرتا حالانکہ اصل پاور عوام ہے
پرعوام میڈیا پربھروسہ کرتی ہے شاید یہ سیاسی مگرمچھ باز آجائیں اسی لیے
میڈیا کے ہاتھ ان کی ڈوردے رکھی ہے مگرجولوگ عوام میڈیا اور عدلیہ کو مذاق
سمجھتے ہیں یا انکو پیٹھ پیچھے بے وقوف کا خطاب دیتے ہیں انکو یادرہے کہ
عدلیہ،عوام اور میڈیا کے پاس احتساب کی پاور ہے اب بھی وقت باقی ہے صحافیوں
کو سیاستدانوں سے دور ہوکرغیرجانبدارہوکے سو چنا چاہیے تاکہ ان
دونمبرسیاستدانوں کے چہروں سے نقاب اترسکیں آخرمیں میں اپنی صحافی برادری
سے معافی طلب ہوں کہ اگرمیری کوئی بات بری لگی تو معاف کردیں مگراپنے ملک
کی عوام کی خاطر اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانا چاہیے اور ایک ایسا صحافی
بنیں جسے دیکھ کے لوگ کہیں کہ یہ ہماراآئیڈیل ہے ۔ |