وطن سے نام نہاد محبت

وطن سے ہماری محبت نام نہاد سی ہوکر رہ گئی ہے اور اس محبت کی مدت بھی بہت تھوڑی ہو گئی ہے۔ اگست کے آغاز میں ہمیں یہ ریلیز ہونا شروع ہوتا ہے کہ بھائی ہمیں تو پاکستان سے بہت محبت ہے اور اس محبت کی مدت صرف 14 اگست تک رہتی ہے۔ اس کے بعد یہ ایکسپائر ہو جاتی ہے۔ سارا سال ہم اس موقعے کی تاک میں رہتے ہیں کہ بس ہمیں ایک موقع ملے اور ہم اس ملک سے چلے جائے۔ ہم پاکستان میں رہنا، یہاں پر کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ بلم کرتے ہیں کہ اس ملک کا نظام اچھا نہیں۔ ہمیں اس میں خامیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ تو اپنی ایسی شاندار محبت کو کیا نام دینا چاہیے۔ اس محبت کو نام نہاد محبت کہنا زیادہ غیر مناسب نہیں ہو گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وطن سے محبت کا اظہار 14 اگست کو گرین کپڑے پہن کر، فیس پر جھنڈے بناؤا کر لیا تو بس ہوگیا اس کی محبت کا حق ادا۔ اب کام ختم۔ ۔۔۔

نہیں جناب یہ وطن ہے ہماری کوئی محبوبہ نہیں ہے جس کو ہم آئی لو یو کی لوری سنا کر بہانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہم وطن ہے جس کو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس کو تھرڈ کلاس نام نہاد ڈائیلاگز کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اپنے کھوئے ہوئے دماغوں کی تلاش ہے جو دوسرے ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ ہم محبت کے دعوے پاکستان سے کرتے ہیں اور کام دوسرے ملکوں کے فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اس ملک میں کرپشن اور سفارش کے بغیر کام نہیں ملتا۔ ایک معصوم سا سوال پوچھوں۔ اس رشوت اور پرچی سسٹم کو بھروا کو دے رہا ہے؟۔ کیا ہم ہی نہیں دے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رکھے خواص ہمیشہ عوام میں سے نکلتے ہیں۔ اور وہ ویسے ہی ہوتے ہیں جیسی کہ عوام ہوتی ہے۔ اگر حکمران کرپٹ ہے تو قوم بھی کرپٹ ہے اور اگر قوم بے ایمان، جھوٹی، سست اور کاہل ہے تو یہ تمام وصف حکمران میں بھی موجود ہوں گے۔ ایک قوم پر ہمیشہ ویسا ہی سردار مسلط کیا جاتا ہے جیسی وہ خود ہوتی ہے۔ مگر ہم ساری امیدیں بھی صرف گورنمنٹ سے لگاتے ہیں اور ساری خرابیوں کا الزام بھی گورنمنٹ کو دیتے ہیں۔ جب کے نیچر کا اصول ہے کہ جیسا چال چلن رعایا کا ہوگا ویسے ہی اس پر حکمران مسلط ہو گے۔ یہ صرف آج کی بات نہیں ہے یہ شروع سے ہوتا آیا ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے بارے میں قرآن پاک میں بھی بیان کرتے ہیں کہ۔
" اور جیسی رعایا ہو گئی اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کیے جائیں گے۔"

ہم لوگ خود کچھ کرتے ہی نہیں اور ملک کے خراب نظام کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی ہم سے بولے کہ آپ کو گرین کارڈ دیتے ہیں۔ اور اس کے بدلے بس آپ کو اپنے اس ملک سے سارے تعلقات توڑنا ہو گئے تو ہم اس سو کلید گرین کارڈ کے لئے یہ بھی کرنے کو تیار ہو جائے گے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان سے محبت ہے لیکن یہاں دہشت گردی ہے، بے روزگاری ہے وغیرہ وغیرہ۔اس لیے ہم اس ملک میں رہنے اور اس میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور دوسرے ممالک میں جا کر ان کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنی عزت تک بیچ کر ان کی غلامی کرنے کے تیار ہیں۔ مگر خود کے ملک میں عزت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

افسوس ہے ہم پر اور ہماری سوچوں پر ہم عزت کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں۔ مگر ہمت کر کے مشکلات کا سامنا نہیں کر سکتے۔ اس ملک کے بہترین دماغ دوسرے ملکوں میں کام کر رہے وہاں وہ محنت اور ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور اپنے ملک میں اس سب کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہم دوسروں کی غلامی کرنا تو پسند کرتے ہیں مگر خود کے ملک میں خود کے مالک بن کر کام نہیں کر سکتے۔ میں مناتی ہو کہ پاکستان میں کام کر کے ہم لوگوں کے لیے تھوڑے وقت میں زیادہ پیسہ بنانا ممکن نہیں ہے مگر ہم اپنی مٹی کے لیے کام کرکے اس کا نام تو بنا سکتے ہیں۔ اس کا نام ہوگا تو یقیناً ہمارا ہی نام ہو گا۔ پھر ہمیں نام نہاد ڈائیلاگز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ ہمارا کا کام ہی ہماری وطن سے محبت کو ظاہر کر دے گا۔

ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہے۔ یہاں سست الوجود ہوتے ہیں۔ جذباتی ہوتے ہیں، منافقت اور کرپشن میں لت پت ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جا کر پتا نہیں کیا ہو جاتاہے، ہم جن بن جاتے ہیں۔ پھر وطن سے محبت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور اس مٹی کی یاد میں آہائے بھی بھرتے رہتے ہیں مگر واپس آ کر اس ملک کے لیے کام نہیں کرتے ہیں۔

ہما نوجوان نسل پڑھ بھی یہ سوچ کر رہے ہوتے ہیں کہ موقعے ملتے ہی اس ملک سے نکل جانا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتی کہ دوسرے ملک سے تعلیم حاصل نہ کروں یا وہاں کام نہ کروں مگر اپنی سر زمین پاکستان کو بھی تو اپنی بہترین صلاحیتیں دو۔ خالی حوالی محبت کے دعوے نہ دو۔ بلکہ اس کے لیے کام کروں۔ جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں وہ وہاں جاکر بسنا نہ شروع ہو جائے بلکہ اس سوچ کے ساتھ جائے کہ انہیں اپنے وطن واپس آکر اس کے لیے کام کرنا ہے۔ یورپ سے تعلیم ضرور حاصل کریں۔ مگر قائد اعظم اور علامہ اقبال کی طرح واپس آکر اپنے ملک کے لیے کام کریں۔ کیونکہ ہمارے ملک کو ہمارے کام کی ضرورت ہے نام نہاد محبت کے دعوؤں کی نہیں۔

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.