آج میری امی نے مجھے فون کیا کہ بیٹا کب گھرآرہے ہو عید
میں چندروز رہ گئے ہیں میں نے کہا کہ امی آج روانہ ہوتا ہوں امی کے حکم کی
تعمیل کرتے ہوئے میں ٹکٹ بک کرانے گیا تو یہ دیکھ کے حیران ہوگیا جیسے پورا
لاہور ٹکٹ کرانے آیا ہوا ہے تو میں نے سوچا لگے ہاتھ کالم کا کام بھی کرلوں
تو میں نے ٹکٹ چیکرسے کراچی کی ٹکٹ پوچھی اس نے ایسے جواب دیا جیسے میں اس
سے ٹکٹ مفت لینے آیا ہوں کہتا ہے 3000میں نے کہا کیا لاہور سے کراچی تین
ہزار کہتا ہے جب اتنے پیسے جیب میں نہیں تو آکیوں جاتے ہو تو میں نے کہا
میں نے ویسے مظفرگڑھ جانا ہے تو کہتا ہے 1000روپے لگیں گے اگرملتان جاؤ گے
تو 800اگرکشمورجاؤ گے تو2000اور نہیں جانا تو جاؤ اور بھی لوگ ٹکٹ کیلئے
کھڑے ہیں میں لائن سے ہٹ گیا مگرسوچتارہا کہ ان دنوں آدمی ائیرپلین کی ٹکٹ
لے تو وہ بہتررہتی ہے مگرجب یاد آتا ہے کہ میں کوئی سیاستدان توہوں نہیں کہ
کرپشن کرکے پیسے اتنے بنالوں کہ مجھے ائیرپلین کی ٹکٹ مل جائے ہمارے
حکمرانوں کے بس میں آئے تو ہمیں جہاز دیکھنے کا بھی ٹیکس لگا دیں۔ہرحکومت
بجٹ پیش کرنے سے پہلے ہرچیز کے ریٹ کم کردیتے ہیں بعدمیں 100گناوصول کرنے
کے بعد بھی من نہیں بھرتاپیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہویاکمی اس مافیہ نے
کرائے میں کمی نہیں کرنی چاہیے کسی کے پاس گھرواپسی کے پیسے ہوں یا ہوں کئی
لوگ کرائے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کے ساتھ عیدبھی نہیں کرسکتے اور
اگرغلطی سے آدمی ٹکٹ لے کربیٹھ جائے تو ایسے سواریاں بٹھاتے ہیں جیسے انسان
نہیں جانوربٹھارہے ہوں سیٹ ملنا تو دور کی بات پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں
ہوتی ان سے اگرکوئی پوچھنے والا ہو تو پوچھے بھئی ایک تو کرایہ اتنا زیادہ
لیا اوپرسے اضافی سواریاں کس لیے اگرکوئی غلطی سے پوچھ بھی لے تو کہتے ہیں
راستے میں ہی اترجاؤ آپکو کرایہ دے دیتے ہیں ورنہ چپ کرکے بیٹھے رہو اب رات
کے 12بجے کے بعد کسے پاگل کتا کاٹے گا کہ وہ کرایہ واپس لے کے گاڑی سے
اترجائے راستے میں اسکے علاوہ بس کے اوپر بھی کئی سواریاں بیٹھایا لیٹا
دیتے ہیں جو سنگین حادثہ کا سبب بنتے ہیں اورراستے میں جتنے بھی چیک پوسٹ
آتے ہیں وہاں پریہ ڈرائیورحضرات رشوت دے کرآگے نکل جاتے ہیں اگریہ کہا جائے
کہ ان کے ساتھ ہر چکرکی قیمت مختص ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا جب تک ان کے خلاف
عوام نہیں بولے گی یہ باز نہیں آئی گے مگرعوام کو اپنی پریشانیوں سے فرصت
ملے تو وہ بھی اس جانب نظرثانی کریں ۔ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ ڈیزل اور
پیٹرول کی گاڑیوں کے کرایوں کیتعین کی واضع پالیس بناکے ان
پرعملدآمدکرے۲۔حکومت کو عوام کے ساتھ مساوی سلوک برتنے کیلے اس بات کو ذہن
نشین کرنا چاہیے کہ اگرپیٹرول ڈیزل کی قیمت کم ہوتی ہے تو عوام کو کرائے
میں بھی ریلیف دینا حق ہے۳۔مجازاتھارٹی مجوزہ اضافے سے پہلے عوامی
تجاویزواعتراضات کیلئے اسے مشتہرکرے اور عوامی نمائندوں کے ساتھ مشاورت
کرکے اسے نافذکرے کیونکہ آج کل ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ٹرانسپورٹ مالکان کی
ملی بھگت سے وہ اپنے بنک بیلنس تو بھرلیتے ہیں مگرعوام کا خون نچوڑ نچوڑ
کر۔4پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹ مکمل کیے جائیں تاکہ سواریوں کو دقت نہ ہو
5.مشہورسٹاپ پر شکایت سیل قائم کیے جائیں اور ان پرفوری حل کو یقینی بنایا
جائے 6. ٹریفک پولیس اور پنجاب پولیس کی وردی کے ساتھ ان کے رویے میں بھی
تبدیلی ضروری ہے تاکہ عوام کے دل میں ان کے لیے ڈر نہیں عزت ہونی چاہیے
۔امیدکرتے ہیں نئے پاکستان کے دعویدار اور عوام کش حکمران اس طرف توجہ ضرور
فرمائیں گے شہروں میں میٹرو بسیں خالی گھومتی ہیں مگر پبلک ٹرانسپورٹ جس
میں عام عوام سفرکرتی ہے اورلمبے سفرکرتے ہیں اور زیادہ کرایہ اداکرتے ہیں
وہ بھیڑبکریوں کی طرح سفرکرتے ہیں ۔https://hamariweb.com/articles/49754
|