جتنے روپیوں میں قربانی کا جانور آتا ہے اتنے روپے صدقہ وخیرات کردینا چاہیے

اسلامی قوانین کے ساتھ ملکی احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے سنت ابراہیمی ادا کی جائے اور غریبوں کا خیال بھی رکھا جائے

 لفظِ قربانی جو اُردو میں استعمال کیا جاتا ہے اس کو عربی زبان میں ’’قُرْبَانٌ‘‘ کہتے ہیں۔لفظِ قربان ’’قُرب‘‘ سے بنا ہے جس کا معنی ہے قریب ہونا۔ تو گویا قربانی اﷲ عزوجل سے قریب ہونے کا ایک ذریعہ ہے کہ جو لوگ صدق دل سے خلوص کے ساتھ قربانی کرتے ہیں وہ لوگ اﷲ عزوجل سے قریب ہو جاتے ہیں۔

٭قربانی کس پرواجب ہے؟ :قربانی ایک مالی عبادت ہے جو غنی پر واجب ہے۔شمس الائمہ امام سرخسی حنفی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:مالی عبادت دو قسم کی ہیں، ایک بہ طریقِ تملیک یعنی اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی کو کوئی چیزدے دینا جیسے صدقات و زکوٰۃ وغیرہ اور ایک بطریقِ اِتلاف ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی چیز کو ہلاک کر نا جیسے غلام آزاد کرنا۔ قربانی میں یہ دونوں قسمیں جمع ہو جاتی ہیں، اس میں جانور کا خون بہا کر اﷲ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے، یہ اِتلاف ہے اور اس کے گوشت کو صدقہ کیا جاتا ہے، یہ تملیک ہے۔ خاص جانور کو خاص دن میں اﷲ کے لیے ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔ مسلمان،مقیم، مالک نصاب اور آزاد پر قربانی واجب ہے۔جس شخص کے پاس حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی ہویا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت مذکورہ تعداد کے برابر ہوتو قربانی واجب ہے۔قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دوراتیں۔ان میں دسویں سب سے افضل ہے،پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ۔قربانی کے وقت قربانی ہی کرنا لازم ہے اتنی قیمت یا اتنی قیمت کا جانور صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہوگا۔(قانون شریعت،بہار شریعت)

٭قربانی کے جانور:حلال جانوروں کے حوالے سے اﷲ پاک ارشاد فرماتا ہے،ترجمہ:تمہارے لیے حلال ہوئے بے زبان مویشی۔(سورہ مائدہ،پارہ 6)ایک اور مقام پر فرمایا: تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے۔(سورۂ حج،پارہ 17،آیت 30)ان آیات میں تمام چرنے والے جانوروں کی حلت کا عام حکم ہے۔معلوم ہوا کہ بکری،بھیڑ،اونٹ،گائے اور بھینس حلال جانور ہیں اور ان کی قربانی بھی درست ہے۔

٭قربانی کی رقم صدقہ کردو:چوں کہ مہاراشٹر حکومت نے گائے وبیل کے ذبیحہ پر پابندی لگا دی ہے اس لیے کچھ لوگ اس مغالطے کا شکار ہے کہ جتنے روپے کا بیل آتاتھااتنے روپے صدقہ وخیرات کردینا چاہیے۔یاد رہے حکومت نے صرف گائے اور بیل کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی ہے جبکہ اونٹ،بکری اور بھینس کی قربانی پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔طبرانی میں ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ جو روپیہ عید کے دن قربانی پر خرچ کیاگیااس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں(بہار شریعت)اور کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ قربانی کرنے کی بجائے کسی غریب کی مدد کردو،مگر یہ جذبہ ایام قربانی میں کیوں پیداہوتاہے؟اسمارٹ فون،ایل ای ڈی ٹی وی اور دیگر مہنگی اشیا خریدتے وقت یہ جذبہ کیوں سرد پڑجاتاہے؟قربانی سے پرہیز کرنے والوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے فرمایاکہ جس میں وسعت ہواور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے(ابن ماجہ)حضرتِ زید بن ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب نے عرض کیا یا رسول اﷲ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت ہے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :ہر بال کے برابر نیکی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا بھیڑ کے بال؟ آپ نے فرمایا :بھیڑ کے بال کے ہر سوت کے برابر نیکی ہے۔(مشکوٰۃ شریف)لہٰذااہل ثروت کو چاہیے کہ وہ قربانی ہی کریں،ہاں اگر وہ قربانی کے ساتھ صدقہ وخیرات کرنا چاہے تو کوئی قباحت نہیں۔

٭قربانی یا گوشت خوری؟:بعض لوگ اس تذبذب کا شکار ہے کہ انھیں بھینس کا گوشت پسند نہیں یا اس میں گائے کے مقابلے میں لذت کم ہوتی ہے۔مگر یاد رہے کہ یہاں پسند،ناپسند اور لذت کی بات ہی نہیں ہے اورقربانی گوشت خوری کا نام ہے بھی نہیں ۔ اﷲ پاک نے ارشاد فرمایا:اﷲ کو ہر گزنہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔(سورۂ حج،پارہ۱۷،آیت ۳۷)رب تو اپنے بندے کی نیت دیکھتا ہے کہ وہ کتنے خلوص کے ساتھ اپنے خداکی بارگاہ میں قربانی پیش کررہاہے۔ اﷲ عزوجل نے قرآنِ مقدس میں ارشاد فرمایا:’’بے شک یہ روشن جانچ تھی‘‘۔ یعنی اس کے ذریعہ مخلص اور غیر مخلص کی جانچ ہوتی ہے کہ ’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کا دعویٰ محض دعویٰ ہے یا اس کے ساتھ اس کی کوئی دلیل بھی ہے۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اس امتحان میں کامیاب ہوگئے تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں یہ صلہ دیا کہ ہر سال صاحبِ استطاعت مسلمان پر قربانی کو واجب قرار دے کر ان دونوں حضرات کی یاد منانے کا ذریعہ بنادیا اور ان شاء اﷲ صبحِ قیامت تک آنے والے مسلمان ہر سال ان حضرات کو یاد کرتے رہیں گے۔ خداراخدارا! اپنے حال پر غور کریں،اخلاص کا دامن تھامیں اور قوم میں فتنہ پیداکرنے سے پرہیز کریں۔

٭ہمیں تو گائے ہی ذبح کرنا ہے :چند لوگ جوانی کے جوش اور عقل وہوش کی کمی کے سبب یہ کہتے ہیں کہ ہم تو گائے یا گائے کی نسل کے جانور ہی ذبح کریں گے ۔ایسے نازک حالات میں جہاں قانون کا حکم امتناع بھی عائد ہے تو حکمت عملی سے کام لینا چاہیے ۔لوگوں کا جذبہ اپنی جگہ مگر اسلام خود کو مصیبت میں ڈالنے کا حکم بھی نہیں دیتا ہے ۔رہی بات جذبے کی تو اس پر یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ حکومتی پابندی کے بعد بھی جو لوگ سر عام سڑکوں ،گلیوں اور دروازوں کے سامنے ذبح کرتے ہیں ان کی حرارت ایمانی دوسرے فرائض وواجبات کی ادائیگی کے وقت کیوں سرد ہو جاتی ہے؟دوسرے شہروں یا قصبوں کا حوالہ دے کر یا چھپ چھپا کر فریضۂ قربانی ادا کرنے سے بہتر ہے کہ جس چیز کی ملک میں اجازت ہے بڑے اہتمام اور اخلاص کے ساتھ اس فریضے کو ادا کیا جائے۔کیا قربانی چھپا کر کرنے کانام ہے ؟کیا قربانی گوشت خوری کا نام ہے ؟ اﷲ پاک تو ہماری نیتوں کا جاننے والا ہے ،ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ اسلامی قوانین کے ساتھ ملکی احکام کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے سنت ابراہیمی ادا کی جائے اور غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731575 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More