یہ واقعہ 60 کی دہائی کا ہے۔ ہم لوگ مزنگ کے علاقے میں
رہتے تھے ۔میں میٹرک کا طالب علم تھا۔عید کا دن تھا۔میرے والد اور دیگر
محلے دار سبھی بکرے کی قربانی کرتے تھے۔ صبح صبح قربانی سے فارغ ہو کر میں
نے مزنگ اڈے کے قریب فین روڈ پر رہائش پذیر اپنے ایک دوست کے گھر کا رخ کیا۔
ایک دن پہلے اس دوست نے بتایا تھا کہ وہ اس سال بیل کی قربانی دے رہے ہیں۔
ہمیں بیل کی قربانی دیکھنے کا بہت شوق تھاسو اس کے پاس جا رہے تھے۔ قصاب
عید کے دن بہت مصروف تھا اور بیل کو ذبح کرنے کے لئے اس نے انہیں گیارہ بجے
کا وقت دیا تھا۔ ہم چند دوست بڑے اشتیاق کے ساتھ بھاگم بھاگ قصائی کی آمد
سے قبل پونے گیارہ بجے ہی ان کے گھر کے باہر گراؤنڈ میں قربان گاہ کے گرد
سجی کرسیوں پر براجمان تھے۔سوا گیارہ بجے کے قریب دور قصائی صاحب آتے نظر
آئے تو سب کے چہر وں پر ایک رونق آگئی۔
پہلے پندرہ بیس منٹ تو قصائی صاحب کو اپنے اوزار ٹھیک کرنے میں لگے۔ اب وہ
بیل کو ذبح کرنے کے لئے تیار تھے۔انہوں نے دو لمبی رسیاں لیں۔ان دونوں
رسیوں کو بیل کی دونوں ٹانگوں کے گرد لپیٹا۔ ان کے دونوں شاگردوں نے رسیوں
کے سرے ہاتھ میں پکڑے اور تقریباً پانچ چھ فٹ کے فاصلے سے بیل کی ٹانگوں کو
کھینچنے لگے۔استاد نے بیل کی کمر میں ہاتھ ڈالے اور اسے اپنی طرف کھینچنے
لگا۔ استاد قصائی چھ فٹ کا لمبا تڑنگا جوان تھا۔ ان تینوں کی زور آزمائی کے
سامنے بیل کی مزاحمت کچھ کام نہ آئی اور چند منٹوں میں وہ زمین پر لیٹا
تھا۔سینئر یا استاد قصائی اچھل کر اس پر بیٹھ گیا اور ہاتھ بڑھا کر چھری
پکڑنے لگا۔ بیل کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اب وقت آخر ہے۔ جان بچانے کے لئے
اس نے آخری ہمت کی ۔زور سے اچھلا۔ جس کے نتیجے میں چھری پکڑنے کی سعی کرتے
سینئر قصائی بھی اور زور سے اچھلے اور زمین پر چاروں شانے چت آ پڑے۔بیل کی
ٹانگوں پر لپٹی ہوئی رسیاں ایک جھٹکے میں کھل گئیں۔ وہ کھڑا ہوا اور اس سے
پہلے کہ اسے قابو کیا جاتا وہ بھاگ نکلا۔
اب عجیب سماں تھا۔ سینئر قصائی نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ رسیاں پکڑ کر
اس کے پیچھے بھا گو اور باندھ کر قابو کر لو۔ وہ خود جلدی سے اٹھا۔ ہاتھ
میں دو چھریاں پکڑیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ بیل کے پیچھے ۔ میرے
دوست کے والد درمیانی عمر اور چھوٹے قد کے منحنی سے آدمی تھے۔ اپنا بیل
ہاتھ سے جاتے دیکھ کر انہوں نے واویلا شروع کر دیا۔ قربان گاہ کے ارد گرد
ہم دوست، ان کے کچھ رشتہ دار، کچھ دوست ،عزیز اور ملازمین سمیت بیس کے قریب
لوگ کرسیوں پر براجمان تھے ۔ سب سے کہا گیا کہ بھاگیں کہیں بیل نظروں سے
اوجھل نہ ہو جائے۔ اب ہم سب بیل کی رفتارسے اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔
چند محلے دار بھی مدد کو آگئے۔چند لمحوں میں بیل’’ فین روڈ‘‘ پر پہنچ چکا
تھا۔یہاں سے دائیں جانب مال روڈ اور بائیں جانب مزنگ اڈا ہے۔بیل رکا اور
اپنا رخ مزنگ اڈے کی طرف موڑا۔ بیل پکڑو، بیل پکڑو کے نعرے پورے زور شور سے
لگ رہے تھے۔ پتہ نہیں کہاں سے چند لوگ آئے اور بیل کے سامنے سے اسے روکنے
کی کوشش کی۔ بیل مڑا اور اب بڑی سپیڈ کے ساتھ مال روڈ کی طرف بھاگ رہا تھا۔
مال روڈ پر پہنچ کر ہائی کورٹ چوک کے عین وسط میں بیل بڑے اطمینان سے کھڑا
ہو گیا۔ میں نے جائزہ لیا۔ کہتے ہیں لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔بیل
پکڑو مہم جس کی ابتدا بیس آدمیوں سے ہوئی تھی ۔اب اس میں سو سے زیادہ آدمی
شامل تھے اور لمحہ بہ لمحہ ان میں اضافہ ہو رہا تھا۔بیل چاروں طرف سے گھر
چکا تھا۔ اس زمانے میں مال روڈ سے اکا دکا کوئی گاڑی گزرتی تھی۔ سا ئیکلوں
کا ہجوم ہوتا تھا۔ جو سائیکل سوار بیل پکڑو کا نعرہ سنتا، سا ئیکل کھڑی
کرتا اور ساتھ بھاگنا شروع ہو جاتا۔ قصائی حضرات نے رسے بیل پر پھینکے کہ
پکڑا جائے۔ بیل کو خطرے کااحساس ہو گیا۔ اس نے ایک دم جی پی او(GPO) چوک کی
طرف دوڑ لگا دی ۔جی پی او(GPO) چوک میں پہنچ کر بیل ایک بار پھر کھڑا ہو
گیا ۔ یہاں بیل کے ارد گرد سینکڑوں لوگ کھڑے تھے۔ بیل تھک بھی چکا تھا اور
ایک بڑا ہجوم دیکھ کر کچھ پریشان بھی تھا۔ کچھ منچلوں نے قصائی حضرات سے
رسے لے لئے اور بڑی پھرتی سے بیل کی ٹانگیں باندھ دیں۔
چند منٹ میں بیل زمین پر پڑا تھا اور قصائی حضرات بڑی تیزی سے اس کی گردن
پر چھری چلا رہے تھے۔ بیچارے کو تڑپنے کی اجازت بھی نہ مل سکی کیونکہ
درجنوں لوگ اس کے جسم اور ٹانگوں پر براجماں تھے۔سبھی لوگ خوشی سے نعرے
بازی کر رہے تھے۔ میرے دوست کے والد بڑی پھرتی میں کہیں سے ڈھونڈھ کر ایک
رہڑا لے آئے۔ ذبح شدہ بیل اٹھا کر رہڑے پر ڈالا گیااور ہم سب قربان گاہ
واپس آئے، دس پندرہ منٹ تک آرام کے بعد کھال اتارنے اور گوشت بنانے کے
مراحل شروع ہوئے اور یوں خاصی بھاگ دوڑ اور مشقت کے بعد اس اچھوتی قربانی
کا اختتام ہوا۔
سوشل میڈیا پر آجکل ایک تصویر عام نظر آتی ہے۔ درمیان میں ایک بیل ہے اور
ارد گرد موٹے تازے بیل نما دو لوگ ، شاندار لباس اور کروفر۔ کیپشن ہے تین
بیل۔ واقعی وہ تین بیل ہیں۔ ایک حقیقی بیل ہے اور باقی دو کرپشن کے بیل
ہیں۔اتنا موٹاپا اور ایسی شان و شوکت عموماً حرام کی کمائی ہی سے ممکن ہوتی
ہے۔ حقیقی بیل اﷲ کی خوشنودی کے لئے قربان کئے جاتے ہیں اور کرپشن کے بیل
عوام کی بہتری اور فلاح کے لئے۔ نئی حکومت نے کرپشن کے بیلوں کے خلاف
کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس واقعے میں کرپشن کے بیلوں کے خلا
ف کاروائی کرنے والوں کے لئے اورکرپشن کے بیلوں کے لئے بھی کچھ سبق ہیں۔
کاروائی کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بیلوں کو رسیاں ڈالنا ہی کافی
نہیں ہوتا۔ ان کی مشکیں پوری طرح کس دینا لازمی ہوتا ہے ورنہ وہ بھاگ جاتے
ہیں اور انہیں قابو کرنے کے لئے بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔بھاگنے والوں کو
بھی پتہ ہونا چاہیے کہ وہ جتنا بھی بھاگیں کہیں نہ کہیں کوئی جی پی او(GPO)
چوک آنا ہوتا ہے، جہاں وہ انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ |