خوف

عائشہ طارق
زمانہ ازل سے خوف انسان کو دشمن رہا ہے یہ انسان کی کامیابی کو تباہ کر دیتا ہے۔ ابتداء سے ہی انسان کسی نہ کسی خوف میں مبتلا رہا ہے۔خوف کے پیدا ہونے کے لیے خطرے کا ہونا ضروری نہیں۔خوف انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ حالات سے بھی اور خیالات سے بھی۔ انسان کا ڈر اس سے اس کے کام کرنے کی صلاحیتوں کو بھی چھین لیتا ہے۔ ڈر کامیابی کے درمیان حائل سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ زیادہ تر لوگ حقیقی خوف کی جائے فرضی خوف پال لیتے ہیں۔ کسی نہ کسی چیز کا ڈر انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔ کوئی اونچائی سے ڈراتا ہے، تو کوئی اندھیرے سے، کوئی بادل سے، تو کوئی بارش سے اور کوئی موت سے،۔۔۔ ایسی طرح کے خوف نے انسان کو آگے بڑھانے سے روک رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے انسان اپنی self respect اور self esteem کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ جعلی پیروں، فقروں کے چکروں میں بھی پڑا جاتا ہے ۔ ڈر کی وجہ سے انسان اپنی ذات پر یقین کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ڈر نے قوموں کا مستقبل تاریک بنا دیا ہے۔ اگر خوف کو ختم نہ کیا جائے تو یہ انسان کی صلاحیتوں کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔ کامیاب لوگ بےخوف ہوتے ہیں۔ وہ ہر قسم کا خطرہ مول لینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کیوں کر چھوٹی چھوٹی باتوں سے اور چیزوں سے خوف ذدہ ہو جاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں وہ کمزور ہے اس لیے وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈر جاتے ہیں۔ مگر ڈر تو ہماری ذہنی کیفیات میں سے ایک ہے اس کا اثر کچھ پل کے لیے ہوتا ہے۔ مگر اس کو ہم اپنے اوپر اس قدر حاوی کر لیتے ہیں کہ اس خسارے نکلنا ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور وہ ہمارے دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اپنے ڈر پر قابو پا کر ہم دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ کیونکہ "ڈر کے آگے جیت ہوتی ہے۔"

انسان کا دماغ ایک پاور ہاؤس ہے۔ اگر آپ خوف ذدہ ہے تو آپ کی ساری طاقت اس خوف کو دور کرنے میں لگ جاتی ہے اور اس کے پاس انسان کو مثبت اور پر امید سوچ فراہم کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ اگر خوف ذدہ انسان گھر سے بڑی ہمت کر کے پانی پت کی جنگ لڑنے کے لیے نکلتا ہے تو محلہ کی لڑائی لڑ کر واپس آ جاتا ہے۔ انسان کا خوف اس کی منزل کو چھپا دیتا ہے۔ ہر قسم کے ڈر کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا جائے کہ میں نہیں ڈرتا تجھ سے۔ اپنے ڈر کو اپنی طاقت بنایا جائے نا کہ کمزوری۔ اس سے پہلے کے آپ ڈر آپ کو استعمال کرے اور آپ پر حاوی ہونے کی کوشش کرے۔ آپ اس کو دبوچ لے اور اس پر حاوی ہو جائے۔

شیخ سعدی شیرازی اپنی ایک حکایت میں بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے غلام کے ساتھ کشتی میں بحری سفر کر رہا تھا اچانک سفر کے دوران سمندر میں طوفان آگیا تو ایسے میں غلام نے شور مچانا شروع کر دیا۔ اس پر بادشاہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے غلام کو بہت سمجھایا مگر وہ سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ تب کشتی میں سوار ایک سپاہی نے بادشاہ سے کہا جناب آپ کا حکم ہو تو میں کچھ کروں۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ اس سپاہی نے اس غلام کو پانی میں پھینک دیا۔ اور کچھ دیر بعد باہر نکل لیا۔ اب غلام اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ یہ سب دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا۔ اس پر سپاہی نے کہا کہ "انسان کو مصبیت سے تحفظ کی قدر و قیمت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا ہے جب تک اس سے دو چار نہ ہو"۔ یہی حساب ڈر کا بھی ہے یہ بھی تب تک ڈرتا ہے جب تک انسان اس کا سامنا نہیں کرتا۔

ہم خوف کو منفی سمجھتے ہیں اور اس لئے اس کے ہم پر منفی اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ کسی حد تک انسان کے لیے خوف کا ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ سارے فیصلے جن میں احتیاط ہوتی ہے وہاں پر تھوڑا سا خوف بھی ہوتا ہے۔ خوف انسان کو بتاتا ہے کہ وہ انسان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آگ جلتی ہے اس لئے کسی گرم چیز کو محسوس کر کے ہم اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتے ہیں۔ ہاتھ پیچھے کرنا احتیاط ہے مگر اس میں ہوتا تو کہیں نہ کہیں جلنے کا خوف ہی ہے۔ خوف ایک حد تک تو خیر جائز ہے۔ خوف احتیاط پیدا کرتا ہے اور احتیاط زندگی کے تیز سفر میں ایک موزوں اور مناسب عمل ہے۔ مگر صرف خوف ہی کافی نہیں ہوتا کسی خطرے کو ٹالنے کے لیے۔ کیونکہ صرف خوفزدہ رہنے سے تو دشمن نہیں مرتا۔ اس کے لیے عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور عمل کے لیے خوف سے نجات ضروری ہے۔

زندگی صرف خوفزدہ رہنے کے لیے نہیں ملی۔ خوف ترقی سے محروم کر دیتا ہے اور خوفزدہ انسان اپنے اندر ہی ریت کی دیوار کی طرح گر جاتا ہے اور یوں زندگی ہی میں مر جاتاہے۔ ایک حد سے زیادہ خوف ہو تو انسان کا سارا باطنی وجود، اس کی ساری سائیکی، اس کا سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جوف خون کی رنگت اور ہڈیوں کا گودا ختم کر دیتا ہے۔ مگر عظیم انسان موت کی وادی سے باوقار ہو کر گزرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صرف غریب ہی اپنی غربت سے خوف ذدہ ہے۔ مگر نہیں غریب سے زیادہ تو امیر خوفزدہ رہتا ہے۔ اس کو دولت کے کم ہونے کا خوف کبھی لاحق ہوتا ہے تو کھبی اس کے چھن جانے کا۔ ہر ظالم مظلوم سے خوف محسوس کرتا ہے اور مظلوم ظالم سے۔ ڈرنے والا ہی ڈرانے والا بن جاتا ہے۔ ہم جس دشمن سے ڈرتے ہیں۔ وہ بھی تو ہم سے ڈرتا ہو گا۔ خوف ایمان اور نیت کی کمزوری کی وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان کسی غلط کام کی نیت کرتا ہے تو اس کو اس بات کا خوف ہر وقت رہتا ہے کہ کہیں وہ پکڑا نہ جائے۔ خوف زدہ انسان پتوں کی سرسراہٹ سے بھی ڈرتا ہے۔ وہ ہر ایک سے ڈرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
" میرے بندے کسی سے نہیں ڈرتے"

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سچا ایمان رکھتے ہیں وہ کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی خوف ان کو ڈرا سکتا ہے۔ جب انسان کے اندر اللہ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اس کے سب خوف فنا ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ پھر اس کا دل اندیشوں سے نکل کر خدا کی رحمت سے بھر جاتا ہے۔اگر خیال کی اصلاح ہوجائے تو خوف دور ہو جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں پر تو بہ کرلی جائے تو خوف دور ہوجاتا ہے۔ اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرلیا جائے، اس کے فضل سے مایوسی نہ ہونے دی جائے تو خوف نہیں رہتا۔ کوئی رات ایسی نہیں جو ختم نہ ہوئی ہو۔ کوئی غلطی ایسی نہیں جو معاف نہ کی جاسکے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس پر رحمت کے دروازے بند ہوں ، رحم کرنے والے کا کام ہی یہی ہے کہ رحم کرے۔ رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر ان کی خامیوں کے باوجود کیا جائے اور یہ رحم ہوتا ہی رہتا ہے۔ کسی کو خوفزدہ نہ کیا جائے تو انسان خوف کے عذاب سے بچ جاتا ہے۔ دعا کا حاصل اور ماحصل یہ ہے کہ وہ انسان کو خوف سے نجات دلاتی ہے ۔ پیدا کرنے والے کی منشا کے خلاف جو زندگی ہو گی ، خوفزدہ ہو گی۔ خالق سے دوری جس شکل میں بھی ہو ڈر پیدا کردیتی ہے اور خالق کا قرب جس حالت میں بھی ہو خوف سے نجات دیتا ہے۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.