میرا جسم میری مرضی

اس ٹائٹل میں خواتین کی بات کی جا رہی ہے. جو یہ نعرہ لگا رہی ہیں کہ ہمیں اپنی مرضی کرنے دی جائے. ہمیں معاشرے میں برابری کے حقوق دیئے جائیں. ہمیں باہر کی دنیا سے متعارف کروایا جائے حم صرف گھروں میں کھانا پکانے کے لئے نہیں رہ گئے ہیں ہمیں پردے میں نہ رکھا جائے..کیونکہ میرا جسم میری مرضی!!!
کہنے کو تو یہ بات ٹھیک نظر آتی ہے کہ جسکا جسم اسی کی مرضی.اب بات اس اسلامی معاشرے اور تہذیب کی ہے جہاں یہ ناراہ لگ رہا ہے. جی ہاں انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ناراہ مغرب کا نہی بلکہ مشرق کی خواتین کا ہے جو اپنے گھروں سے آزادی چاہتی ہیں.
میرا سوال یہ ہے کہ انھیں کس بات کی آزادی چاہئے ؟؟؟
میرا سوال یہ ہے کہ انھیں کس بات کے حقوق چاہیے ؟؟؟
میرا سوال یہ ہے کہ یہ اپنے جسم کا سودا کیوں کرنا چاہتی ہیں ؟؟؟
میرا سوال یہ ہے کہ یہ خود کو کن عورتوں کی برابری میں دیکھنا چاہتی ہیں ؟؟؟

آئیں ذرا تاریخ میں پیچھے چلتے ہیں جب عورتوں کی ماں بی بی حوا پیدا ہوئی. خدا نے بی بی حوا کو اتنے پردے میں حضرت آدم علیہ السلام کی پسلیوں سے پیدا کیا ک انھیں بھی معلوم نہ ہوا. پسلیوں سے پیدا کرنے کا مقصد عورت آدمی کے دل کے قریب رہ سکے. اور آدمی کو عورت کا محافظ بنا کر بھیجا اور حکمرانی مرد کے ذمے عطا کی تا کی عورت پر سکون رہ سکے اور عورت پر پردہ لازم قرار دیا. صورۃ احزاب میں عورتوں کے پردے کے بارے میں تفصیلی ہدایت مود ہے ..

مگر اب بات اس ماڈرن زمانے کی ہے جس میں ہم سب جی رہے ہیں جس میں اب اسلامی تہذیب اور دیں کی تعلیم ختم ہوتی چلی جا رہی ہے .ناصرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں. مگر میرا جسم میری مرضی کا ناراہ ہمارے معاشرے کو زیب نہیں دیتا کیونکہ یہاں آج بھی مردوں کی نگاہوں میں شرم موجود ہے یہاں آج بھی خواتین کی عزت و احترام کیا جاتا ہے یہاں آج بھی عورت کو عورت کا درجہ حاصل ہے. مشرق کی مسلم خواتین کو مغربی مسلم خواتین سے سیکھنا چاہیے جو آج بھی پردہ کرنے کے لئے فائن ادا کرتی ہیں.

اگر یہ خواتین مغربی خواتین کے بارے میں جان لے جو دن بھر گھر سے باہر رہتی ہیں. جن کے خاوند انھیں بس اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں. جہاں تعلیم کی جگہوں پہ زیتیاں ہوتی ہے .آذادی کے چکر میں جو آج مغرب کا حال ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے. لہذا خواتین کی خوبصورتی انکے پردے میں ہی ہے....

Mustujabuddin
About the Author: Mustujabuddin Read More Articles by Mustujabuddin: 4 Articles with 8897 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.