کسی مخصوص موضوع پر اپنی رائے دینے یا اس رائے کو کسی
مضمون کی شکل میں لکھنے کا عمل ۔”تحریر “ کہلاتا ہے۔تحریر جتنا پڑھنے میں
آسان لگتی ہے اتناہی اس کی تخلیق اور تحریر مشکل ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ انسان
کا شوق سب کچھ کروادیتا ہے۔ جن لوگوں میں لکھنے ،پڑھنے اور اپنے خیالا ت کے
اظہار کا ہنر اور شوق ہوتا ہے ۔ وہ اپنے ان شوق کی تکمیل کے لئے کچھ نہ کچھ
کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔بولنے والنے والا،بولتے بولتے تھک سکتا ہے مگر
ایک لکھنے والے کا قلم کبھی نہیں رک سکتا اور نہ ہی تھک سکتا ہے۔ویسے ہی ہر
لکھنے والے کے الگ مسائل ہوتے ہیں۔جیسے کہ کسی عنوان پر لکھنے کے لئے موضوع
کاچننا، اس پر تحقیق کرنا،تحقیق کے بعد اس تحریر سے جڑے لوگوں کے جذبات
ونتائج کے بارے میں سوچنا،سب سے اہم اس مضمون کو اتنا دلچسپ اور پر کشش
رکھنا کہ قاری پڑھے بنا نہ رہ سکے۔جس طرح لکھنے والے کا مزاج مختلف ہوتا ہے
اسی طرح ہر پڑھنے والے کا مزاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ کوئی فقا ہیہ تحریر
پڑھنا پسند کرتا ہے تو کوئی سنجیدہ ۔اسی طرح تحریر ،اخباری زبان میں آرٹیکل
،تدریسی زبان میں مضمون لکھنے کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں۔جیسے کہ مذہبی اور
معلوماتی آرٹیکل،تحقیقی آرٹیکل ،کسی معاشرتی پہلو کی عکاسی کرنے کے لئے
معاشرتی آرٹیکل ،تعلیمی آرٹیکل ،تفریحی آرٹیکل اور بلاگ دیگر۔ہر تحریر اپنے
آپ میں کسی اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے لکھی جاتی ہے۔ ایک آرٹیکل جو
ادارتی صفحے پر مضمون کی شکل میں آپ سب کے سامنے آتا ہے اس کو لکھنے کے عمل
سے لے کر ہر ایک چیز جیسے ریسرچ،سطرکی لکھائی ،لفظوں کا توازن اور مناسب
استعمال،ثلیث اور پر لطف طریقے سے قارئین تک اپنی بات کو پہچانا ،چیدہ ،چیدہ
پہلوﺅﺅں کی منفرد انداز میں عکاسی اور بہت کچھ۔بحیثیت ایک قلم کار ،کالم
نگار ،بلاگ رائٹر کو جن مسائل سے گزرنا ہوتا ہے اس کا ذکر کچھ یوں ہے۔سب سے
پہلے یہ جان لیجئیے کہ آرٹیکل یا تحریر یا کسی موضوع پر بلاگ رائٹنگ
یامضمون نگاری کیا ہوتی ہے؟تحریر کو کس طرح معلوماتی سے مزین کیا جائے کہ
وہ قاری کے لئے کسی معلوماتی خزانے سے کم نہ ہو اور قارئین کا وقت بھی ضیاع
نہ ہو۔آج کل ”آن لائن لرننگ “ یا ”ویب سائٹ لرننگ(جن کے پاس ہر مخصوص قاری
کے لئے پڑھنے کا مواد ہوتا ہے۔ )“ کا زمانہ ہر کوئی کم سے کم وقت میں زیادہ
سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔کسی کے پاس اخبار پڑھنے کا وقت نہیں۔
پہلے آپ یہ سوچ لیں کہ کس طر ح آپ اپنے قاری کو اپنی تحریر کی جانب متوجہ
کریں گے؟آپ اپنی تحریر میں ایسا کیا انداز اپنائیں گے جو آپ کی تحریر کو
دوسروں سے مختلف کردے گا؟ آپ کی برین اسٹرومنگ اس کام میں زیادہ معاون ثابت
ہوگی۔ اس کے بعد آپ کا پہلا جواب ہوگا۔جی ہاں آپ کا اندازہ با لکل ٹھیک ہے
آپ کی تحریر کا عنوان یا پھر ٹاپک جب آپ کسی بھی شعبہ عامہ کی عملی زندگی
میں قدم رکھتے ہو تو اس جگہ آپ کو اپنی دھاک بٹھانے میں کافی مشکلات پیش
آتی ہیں۔اس لیے سب سے پہلے اپنی توجہ اپنی تحریر کی جانب کیجئے کہ آپ کس
بارے میں لکھنا چا ہ رہے ہیں ۔جسے کہ آپ” جدید طریقہ ءتعلیم“ پر لکھنا چاہ
رہے ہیں تو آپ سب سے پہلے اپنے ذہن میں یہ سوچ لیں کہ ان تما م اصطلاحات سے
آپ کیا سوچتے اورسمجھتے ہیں۔یا پھر ان تما م جدید باتوں کو آپ کس پیرائیے
میں لیتے ہیں، اگر آپ مثبت پیرائیے میں لیتے ہیں تو مثبت لکھیں گے اگر منفی
پیرائیے میں لیتے ہیں تو منفی لکھیں گے ۔ ویسے ہمارے ملک میں بحیثیت مثبت ،منفی
تحریر زیادہ پڑھی جاتی ہے۔ کسی بھی تحریرکو منفی یا مثبت رخ دینا بھی رائٹر
کا ہنر ہوتا ہے ۔اسی ہنر سے آپ کی پہچان بنتی ہے۔
موضوع کا چناﺅ : تحریر کے لئے قلم اور کاغذ کے علاوہ جو چیز سب سے اہم ہوتی
ہے وہ ہے اس کا موضوع اور نئی سوچ وجذبہ جس کے تحت آپ اپنے قاری کو قائل
کرتے ہیں۔یاد رکھیں موضوع صرف ایک موضوع نہیں ہوتا یہ ایک سوچ ہوتی ہے جس
سے آپ کی شخصیت آپ کے قاری کے سامنے بن رہی ہوتی ہے۔آپ اپنے سامنے موجود
شخص کی شخصیت کا اندازہ اس کے وجود سے لگاسکتے ہیں مگر وہ شخص جو آپ کے
سامنے نہیں بلکہ اس کے خیالات سے اس کی پہچان بننی ہے تو یہ قدرے مختلف
مرحلہ آجاتا ہے۔آپ کا موضوع جو بھی ہو اس سے کون سے قاری مستفید ہوں گے
؟مثلا اگر آپ بچوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں تو اس کو منفی کم اور معلوماتی
زیادہ رکھنا ہوگا۔ اگر نوجوانوں کے لئے ہے تو مثبت اور منفی دونوں کا
موازنہ رکھنا ہوگا اور معلومات کے ذخیرے کے بنا تو یہ تحریر یا مضمون
نامکمل ہی ہوگا۔معلومات کے ذخیرے سے مراد کہ یہ کب ؟کہاں ؟کیسے؟ کیوں اور
کس لیے بنائی گئی اس کے نتائج کیا ہوں گے؟وغیرہ ،وغیرہ۔
تحقیق کا عمل:یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے تقریبا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے
مترادف مگر ناممکن نہیں۔ موضوع پر تحقیق سے مراد آپ نے کن ذرائع سے اپنے
مضمون کے لئے مواد لیا ہے۔تحقیقاتی ویب سائٹ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے۔
آپ کی ریسرچ کا ایک ایک نقطہ بھی اہم ہوتا ہے۔ ریسرچ سے مراد یہ نہیں کہ
ریسرچ کے نام پر پورے پورے کتابچے بحوالہ تحریر کردئیے جائیں۔یادرکھیں جتنی
ضرورت ہو اتنا ہی موادا ستعمال کریں ورنہ تحریر آپ کی نہیں بلکہ ریسرچر کی
ہوجائے اور آپ کاپی رائٹ کے جرم کے مرتکب بھی ہوجائیں گے۔
الفاظکا چناﺅیا جملوں میں ربط:جب بھی ہم کوئی بھی تحریر لکھتے ہیں تو ہم
کچھ دیر ٹہرنے کے بعد جو بھی پہلا لفظ لکھتے ہیں وہ منفی ہوتا ہے ۔
یادرکھیں منفی سوچ کو تقویت جلدی ضرور ملتی ہے مگر اس کی کوئی عزت نہیں
ہوتی۔ہم اکثر اوقات ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہیں اور جلدہی چینل سوئچ بھی
کردیتے ہیں اس کی ایک انتہائی چھوٹی سی وجہ ہوتی ہے کہ اینکر نے غلط اردو
کا استعمال کیا ہوتا ہے ۔اسی طرح تحریر میں بھی ایک غلط لفظ قاری کو تحریر
سوئچ کرنے کی جانب راغب کرسکتا ہے۔اس لیے اپنی تحریر کے لئے مثبت اور آسان
الفاظ کا انتخاب کریں خاص طور پراملے کا بہت خیال رکھیں۔اپنی تحریر کے
سطروں میں ربط رکھیں ۔سطروں میں لچک سے ہی تحریر دلچسپ ہوتی ہے۔اگر یہ
دونوں آگے پیچھے ہوں گی تو تحریر کا مقصد دم تو ڑدے گا۔اگر آپ کی تحریر میں
اعدادو شمار زیادہ ہیں تو اس میں اعداد کی عکاسی بالکل درست کریں ورنہ غلط
معلومات جانا بھی مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔تحریر تو کیا ہر جگہ اگر ہم
عملی زندگی میں بھی دیکھیں تو الفاظ کے ہیر پھیر سے کا فی نقصان اٹھانا
پڑجاتا ہے۔کسی کے جذبات کو مجروح کیے بنا اپنی بات کو کہہ دینا ہی اصل
آرٹیکل رائٹنگ کا جزو ہے۔
حرف کل،ختم شد: یہاں حر ف کل سے تحریر کا نتیجہ ہے ۔ بحیثیت ایک مضمون نگار
آپ نے اس موضوع کو اپنے لیے کیساپایا؟ اس موضوع پر تحقیق کرکے آپ کیا نتیجہ
دنیا کو پہچانا چاہتے ہیں ؟کم الفاظ میں اپنی تحریر کا نتیجہ دنیا کو بتا
دیں۔ہر چیز میں کوئی نہ کوئی ایسا نقطہ ضرور ہوتاہے جو آپ کو اس علم تک لے
جاتا ہے۔وہ علم پڑھائی ہی ہوتا ہے۔کوشش کریں کہ مثبت نتیجہ دیں کیونکہ لوگ
زیادہ تر پڑھ کر ہی کسی موضوع پر نتیجہ نکالتے ہیں کیونکہ کسی بھی بات کی
تہہ تک جانا ،ہر کسی کے بس کی با ت نہیں ۔اپنی تحریر کا اختتا م مثبت با ت
سے کریں۔
آپ چاہے کہی بھی تحریر کریں پرنٹ میڈ یا ہو یا الیکڑونک میڈیا ۔کسی اخبار
میں ادارتی صفحے کے لئے کام کریں یا پھر کسی چینل میں ریسرچ یا پھر کونٹینٹ
،اسکرپٹ رائٹر کےطور پر کام کریں ہر دور میں ہر جگہ یہی عوامل ہی آپ کی
تحریر کو بہتر بنائیں گے۔اس لیے اپنے نام اور اپنے کام کے ساتھ انصاف
کیجئے۔ہر اصلا حی عمل شروع شروع میں انتہائی مشکل ہوتا ہے مگر اس تکلیف کے
بعد آپ کو جوراحت ملتی ہے ۔اس کا اندازہ آپ کو اپنی اصلاح کے بعد ہی ہو گا۔ |