نوجوانوں میں نشے کا بڑھتا ہوا رجحان

نشے کی لت ایسا روگ ہے جو اس کے شکار فرد کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ پورے گھرانے کی خوشیاں اور سکون کو برباد کردیتی ہے۔ نشہ کرنے والے اپنے نشے کی عادت کو کافی عرصے تک اپنے گھر والوں سے چھپانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر جب اہل خانہ کو مریض کے نشے کا علم ہوتا تو اس وقت تک پا نی سر سے اوپر ہوچکا ہوتا ہے۔اِن دِنوں ہمارے شہر میں نشہ کی لت وبا خصوصاً نوجوانوں میں عام ہورہی ہے۔نشہ کی ایک شکل گانجہ، چرس،اورافیون ہے جس کے عادی بڑی تعدادمیں چہار جانب موجود ہے۔ وہیں دوسری شکلوں میں بیڑی، سگریٹ تمباکو ،اور شراب نوشی میں مبتلا افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔نشہ کی ایک اوربھیانک شکل گٹکھا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں ہر عام و خاص کے درمیان گٹکھا کی وبا عام ہوئی ہے۔یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو بھی گٹکھا چباتے دیکھا جا رہا ہے۔نوجوانوں میں فروغ پانے والی منشیات میں تمباکو،کُتّا گولی، نشہ آور گولیاں اورفینسیڈِل وغیرہ شامل ہیں، جو کہ کھلے عام بعض محلوں میں فروخت بھی ہورہی ہیں۔ نشے کے اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات پڑھ رہے ہیں وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ منشیات کے استعمال کے باعث عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کی ذہنی صلاحتیں بالخصوص یادداشت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔نشہ آور ادویات کے مسلسل استعمال سے منطقی سوچ متاثر ہوتی ہے، جس سے انسان سیکھنے اور مسائل کے حل کی صلاحیت نہ صرف ختم ہوجاتی ہے بلکہ اسے دوسرے جسمانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عمر کا یہی حصہ سیکھنے کے عمل میں زیادہ اہم ہے۔نشے کا آغاز عام طور پر تفریحاً کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے دوست و احباب نشے کی دعوت دیتے ہیں یا کسی کی دیکھا دیکھی یا چوری چھپے انسان اس غلط عادت کو اختیار کرلیتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ عادت بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے، مستقل نشہ کرنے کی صورت میں نشہ کرنے والوں کا جسم تیزی سے نشے کی مقدار کو ضایع کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے اس طرح نشہ کرنے والے مجبوراً اس کی مقدار میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ اس طرح مختلف نشے کرنے والوں کی زندگی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں اور نشے باز کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیتے ہیں۔نشے کا مریض اپنی ہر حرکت کو جائز سمجھتا ہے۔ نشے کی خاطر غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں تک میں ملوث ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں والدین رونے دھونے، چیخنے چلانے، دھاڑنے، لعنت ملامت، زور زبردستی، تنقید، منت و سماجت، دھمکیوں، دھونس، آنسو، وعظ و نصیحت جیسے تمام حربے استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نشے کا مریض نشے کے زیر اثر ہوتا ہے، اسے اپنے ارد گرد کے حالات کا شعور نہیں ہوتا،اس بات کو مثال سے سمجھیں کہ آپ کے پیٹ میں شدید درد ہے، آپ اس درد میں تڑپ رہے ہوں، اس وقت آپ کا کوئی دوست آپ کو بہترین شعر سنائے تو آپ اس شعر پر داد دینے کے بجائے صرف ایک بات کہیں گے ہائے میرا پیٹ کا درد، کیونکہ آپ پیٹ کے درد کے زیر اثر ہوں گے۔ اس طرح نشے کا مریض نشے کے زیر اثر ہوتا ہے وہ نشے کو مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اسے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے والدین اور معاشرے کے لیے ناسور بن چکا ہے۔منشیات کے استعمال کی بڑھتی ہوئی اس وبا کے آگے بند باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گھروں کے نوجوانوں سے کام شروع کیا جائے۔ والدین کو خود منشیات کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تاکہ بچے اس مہلک قسم کی عادت میں مبتلا نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی اداروں اور دفتروں میں منشیات کے منفی پہلوؤ ں سے متعلق آگاہی کا انتظام کیا جائے۔اب وقت آ چکا ہے کہ عوام اور ارباب اختیار انسداد منشیات کے لئے غیر لکچدار اور سخت گیر موقف اختیار کریں۔ منشیات کی لت کو روکنے کے لئے ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ بندی ان مخصوص منشیات کی نشاندہی کرے جو نوجوان زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس منصوبہ بندی کی بنیاد انسداد منشیات سے متعلق دستیاب وسائل اور تحقیقات پر ہونا چاہیے۔

Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 224 Articles with 249016 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More