صحافت کا گرتا معیار،ذمہ دار کون……؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے بشرطیکہ اس پیشہ کو اخلاص کے ساتھ اپنایا جائے۔ یہ فیلڈ بہت بڑی فیلڈ ہے اور ملک کا ایک ستون سمجھاجاتا ہے ۔ صحافت عربی زبان کے لفظ صحف سے نکلا ہے جس کی تعریف محققین نے مختلف انداز میں کی ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بھی اخبار، چینل، رسائل، جرائد، مطبوعات، کتب اور خبر رساں اداروں کیلئے خبروں اور خبروں پر تبصرے اور تجزئیے کی تیاری کو صحافت کہتے ہیں۔صحافی کی ایک اور مختصر تعریف یوں بھی ہے کہ کسی واقعہ یا خبر کا انکشاف کرنا صحافت کہلاتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی انسان کے متعلق کوئی رائے رکھتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے مگر بطور صحافی فرض ہے کہ جس بنیاد پر رائے قائم کی گئی ہے کیا وہ تحقیق اور تصدیق کے بعد قائم کی گئی ہے اگر ایسا نہیں تو پھر بات تو وہی ہو جاتی ہے جس طرح کسی شاعر نے کہا کہ
دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا انکے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے

جب لفافے آئے تو محبت قائم تھی اور لوگ لفافوں کو بھی محبت کا ذریعہ بنا دیا کرتے تھے۔ منی آرڈر لفافے میں، دوستوں کے پیغام لفافوں میں ، چیک بھی لفافوں کے ذریعے ہی ملتے تھے اگر کسی رشتہ دار دوست سے ملنے کا من ہوتا تو لفافہ ہی کام آتا تھا پردیسی بھی اپنے دکھ درد یا خوشیوں کے قصے کاغذ اور لفافے کے ہی محتاج تھے ۔پردیسیوں سے، بچھڑے ہوؤں کومحبوب کو محبوبہ سے ملانے کی نوید بھی لفافے ہی لاتے تھے مگر جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی لفافہ ختم ہوتا گیااور محبتیں کم ہوتی گئیں۔اب جب بھی کوئی لفافے کا ذکر کرتا ہے تو فوراً خیال آتا ہے کہ یہ کسی صحافی کا ذکر ہو رہا ہو گا ایسا کیوں ہے لوگ ایسا کیوں سوچنے لگے ہیں آخر کیا وجہ ہے ۔ ہم لوگ اس متعلق نہیں سوچتے ادارے اپنے نمائندگان، یا ورکر ز پر تو دباؤ ڈالتے ہیں کہ خبر کی تحقیق کر کے دیں مگر کیا اداروں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ ہم جو نمائندہ جوڑ رہے ہیں کیا وہ ٹھیک ہے یا دو نمبر ہیں اپنے کسی دو نمبر کام کو چھپانے کیلئے صحافت کی آڑ تو نہیں لے رہا ۔ جی نہیں ادارے یہ نہیں سوچتے

ہم اس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟ صحافت کا معیار روز بروزکیوں گر رہا ہے؟ ۔قارئیں کی آسانی کیلئے ایک مثال پیش کر رہا ہوں تا کہ قارئین کو اور اس ایشو پر دلچسپی رکھنے والے اداروں کو میری بات سمجھ آسکے۔ ایک شخص جو کسی بھی ادارہ کا نمائندہ بننے کیلئے پرانے نمائندہ (سینئرصحافی/ہاکر) کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ بھی نمائندہ بن جائے اسکے مقاصد جو بھی ہوں ہم ابھی اس میں نہیں جاتے جب وہ شخص نمائندہ بننے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو نمائندہ( سینئر صحافی)اس شخص کو بغیر تصدیق کے حامی بھر لیتا ہے اور اداروں میں نمائندگی کے ریٹ طے ہونے لگتے ہیں اپنی فرصت کے مطابق جتنی سیکیورٹی کے نام پر دے سکتا ہے سینئیر کو دیتا ہے۔ سیئنر صحافی وہ رقم ہضم کر جاتا ہے 2سے چھ مہینے بعض اوقات 2سال تک بھی نمائندگی نہیں مل پاتی۔ اگرنمائندگی کا خواہش مند فرد اثر رسوخ والا ہو تو جلد کسی نہ کسی ادارے کا نمائندہ بن جاتا ہے بصورت دیگر نمائندہ( سینئر صحافی) کو دی گئی رقم بھولنی پڑتی ہے ۔اس سارے کام میں مزے کی بات یہ ہے کہ ادارہ اگر 5 ہزار سیکیورٹی لے رہا ہے تونمائندگی کے خواہشمند فردسے 8سے 10ہزار وصول کیے جاتے ہیں ۔جبکہ بہت سارے ادارے 10 سے 80ہزار روپے تک بھی سیکیورٹی کے نام پر رقم بٹور رہے ہیں۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہاں پر بہت سارے پڑھے لکھے اور اچھے لکھاری بھی رقم کا سن کر بھاگ جاتے ہیں اور صحافتی پیشے پرکئی سوالیہ نشان لگا جاتے ہیں اور برا بھلا جاننے لگتے ہیں۔

اب جو شخص پہلے پہل ہی سیکیورٹی کے نام پر رشوت دیتا ہے وہ نمائندہ کیا کام کرے گا ہم اور آپ سب لوگ جانتے ہیں ۔ ایسے ادارے جو سیکیورٹی کے نام پر رقم لیتے ہیں وہ یہ تحقیق بھی نہیں کرتے کہ جو شخص ہمیں رقم دے رہا ہے وہ کیا کرتا ہے کہیں اس کا کوئی دو نمبر دھندہ تو نہیں جس کے بچاؤ کے لیے وہ ہمارے ادارے کا سہارا لینا چاہتا ہے ۔ حالانکہ یہ بہت ضروری عمل ہے ۔سیکیورٹی دینے والوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو اتائیت، دو نمبر ڈرگ دیلر، دو نمبر پیسٹی سائیڈ ڈیلر، فراڈ، بھتہ مافیا، ٹاؤٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں ان میں وہ صحافی جو کہ محنت کر کے اپنا مقام بنانے میں لگے ہوتے ہیں وہ گم ہو جاتے ہیں اور سارا سارا دن صفائیاں پیش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور بلیک میلر، لفافہ صحافی جیسے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں جب کچھ نہ بن پائے تو جی ہر جگہ کالی بھیڑیں ہیں جیسے فقرے بول کر جان چھڑانی پڑتی ہے۔

آج کل اداروں میں ایک اور بیماری آگئی ہے کہ سالانہ بزنس جو کہ اپنے نمائندگان سے طلب کرتے ہیں ۔دو نمبرنمائندے تو اپنا دو نمبر کا دھندہ بچانے کیلئے ایڈوانس بزنس دے دیتے ہیں مگر جو صحافی محنت ، ایمانداری سے فیلڈ میں کام کررہے ہوتے ہیں انہیں بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس سارے چکر میں صحافیوں کو عوام کے مسائل نظر آنا بند ہو جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ادارے کو بزنس بھی تو دینا ہے اس لیے وہ آفیسران، دو نمبر، ٹاؤٹ ، مافیا سے تعلقات استوار کرتے ہیں تاکہ بزنس لینے میں آسانی ہو۔یہ وہ مسائل ہیں جو حقائق پر مبنی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ بہت سارے ادارے ان حقائق کو بھی شائع نہیں کرینگے۔اس طرح صاف ستھرے نمائندگان حق سچ کی خبر شائع نہیں کرا سکتے اور اگر کسی کرپٹ آفیسر کے خلاف خبر لگا دیں تو اگلے دن دو نمبر صحافی تردید لگا دیتے ہیں۔

یہاں پر مجھے راقم کے بابا کا بتایا ہوا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ 1993میں غالباً ایک اخبار میں صرف سنگل کالم چھوٹی سی خبر لگی تھی کہ آئس فیکٹری مضر صحت برف تیار کررہی ہے تو اس پر ڈی سی نے ایکشن لیا تھا اور فیکٹری سیل کر دی تھی۔ اس وقت کی خبریں عوام مسائل پر ہوا کرتی تھیں مگر آج میں اکثر اخبارات میں دیکھتا ہوں کہ فلاں سردار نے یہ کہا، فلاں مخدوم نے شہر کو پیرس بنا دیا، فلاں نواب نے یہ حکم صادر کیا۔ پولیس تھانوں میں جائیں تو صحافی ٹاؤٹ کا کام کررہے ہیں، کسی سرکاری دفتر میں جائیں تو کوئی نہ کوئی صحافی وہاں چاپلوسی میں لگا۔ آج صحافت کا یہ معیار ہے کہ جو جتنا زیادہ بلیک میل کر سکتا ہے وہ اتنا بڑا صحافی ہے ۔ جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہونگے ہم کسی ادارے کو، کسی کرپٹ انسان کو، کسی دو نمبر، فراڈئیے کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔یہاں پر تو خدا کا ایسا عذاب ہے کہ بہت سارے دو نمبر لوگ صحافی بنے ہوئے ہیں جن خبر تک لکھنا نہیں آتی اور اس کام کیلئے منشی رکھے ہوئے ہیں۔ جرائم، شہر کے مسائل پر اخبارات میں نہیں ملتے کیونکہ آج کے نمائندگان کو لکھنا ہی نہیں آتا بہت کم نمائندے ہیں جو ڈائریاں لکھ سکتے ہیں اگر کبھی کوئی ڈائری نظر آجائے تو اس میں بھی آفیسران ،سیاستدانوں یا بڑے لوگوں کی خوشامد کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

میری پاکستان میں میڈیا سے متعلق تمام اداروں سے گزارش ہے کہ خدا را اس مقدس پیشہ کی لاج رکھیں۔ اسے بدنام ہونے سے بچائیں ۔ یہ پیشہ ہمارے معاشرے کی آنکھ کہلاتا ہے ، پیغمبرانہ پیشہ کہلاتا ہے ۔ سب سے زیادہ اور بھاری ذمہ داروں ان اداروں کی ہے جو ایسے نا تجربہ کار ، بلیک میلر، دو نمبر، ٹاؤٹ قسم کے لوگوں کو بغیر تحقیق و تصدیق کے نمائندگی عنایت کرتے ہیں، نمائندگان رکھنے سے پہلے کم از کم یہ ضرور دیکھا جائے کہ کیا جو نمائندہ ہم رکھ رہے ہیں کیا وہ خود خبر بنا کر لکھ بھی سکتا ہے یا نہیں، اس کی تعلیم کتنی ہے۔ اس شخص کو پہلے بھی کوئی صحافت کا تجربہ ہے یا نہیں، کسی دو نمبر کام میں ملوث تو نہیں، کسی خاص سیاسی محبت کا شکار تو نہیں، یہ آزادنہ لکھ سکتا ہے یا غلام ذہنیت کا شخص ہے ۔اس کے علاوہ ہاکر اور نمائندہ کا کردار بھی الگ الگ رکھنا ہوگا۔

میری ناقص سوچ کہتی ہے کہ اگر ہم نے صحافت کا معیار بہتر کرنا ہے تو نشرواشاعت کے تمام اداروں کو نمائندگان رکھنے کی پالیسی بنانی ہوگی جس میں تعلیم، تجربہ کی شرائط شامل ہوں، جبکہ اس سے تحریری ٹیسٹ لیا جائے جس میں علاقائی مسائل پر ڈائری، کرائم ڈائری، عوامی مسائل پر خبر، تحقیقاتی خبر کا بھی ٹیسٹ لیا جائے ۔اداروں کو تردیدی خبروں سے بھی اجتناب کرنا ہوگاایسے فرد کا پس منظر جاننا بھی ضروری ہے کہ کہیں وہ کسی دو نمبر دھندے میں تو ملوث نہیں یا دو نمبر دھندے کی حفاظت کیلئے تو نمائندگی نہیں لینا چاہتا ۔اس کے علاوہ بہت ساری چیزیں ہیں جن کی جانچ پڑتال ضروری ہے کیونکہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے ہم سب نے اس ملک کو سنوارنا ہے۔ میڈیا اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس فیلڈ میں مسائل تو بہت ہیں مگر چیدہ چیدہ چیزوں پر بات پہنچا رہا ہوں رب کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
 

Imran Zaffar Bhatti
About the Author: Imran Zaffar Bhatti Read More Articles by Imran Zaffar Bhatti: 24 Articles with 23664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.