جرأت و وفا کا پیکر ۔۔۔۔۔۔ سپاہی مقبول حسین

از قلم: عبدالحمید صادق، ملتان
ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا
وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہرانسان میں پایا جاتا ہے جہاں انسان پیدا ہوتا ہے ، پرورش پاتا ہے اس مٹی سے انسان کی محبت لازم و ملزوم ہوجاتی ہے اپنے وطن سے محبت کی خاطر جوبھی قربانی دینی پڑے انسان اس سے دریغ نہیں کرتا اس کی ایک زندہ مثال سپاہی مقبول حسین ہیں جنہوں نے وطن کی خاطر اپنے جسم پر طرح طرح کے مظالم برداشت کیے لیکن وطن پر آنچ نہ آنے دی ۔

1965؁ء کی جنگ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے مقبول حسین کیپٹن شیر خان کی قیادت میں دیے گئے ٹاسک کے مطابق دشمن کے اسلحہ ڈپو کو تباہ کرنے کے بعد واپس آرہے تھے کہ رستے میں دشمن سے جھڑپ ہوگئی مقبول حسین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔۔۔ اس دوران مقبول حسین زخمی ہوگئے ساتھیوں نے سپاہی مقبول حسین کو کندھوں پر اٹھا کر واپس لے جانا چاہا لیکن انہوں نے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’’ میں زخمی حالت میں اپنے آپ کو آپ لوگوں پر بوجھ نہیں بننے دوں گا میں یہاں بیٹھ کر آپ کو فائر کور دیتا ہوں اور آپ لوگ چلے جاؤ جب تک میرے دم میں دم رہا دشمن کا مقابلہ کرتا رہوں گا اور جب میرا وقت پورا ہوجائے گا خالق حقیقی سے جاملوں گا‘‘ ساتھیوں نے ساتھ لے جانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ سپاہی مقبول حسین کو اس کے پر زور اصرار پر وہیں چھوڑا اور واپس اپنی یونٹ کی جانب روانہ ہوگئے ۔ سپاہی مقبول حسین کا انڈین آرمی کے ساتھ دوبارہ مقابلہ ہوا اور اس دوران ایک گولہ مقبول حسین کو آکر لگا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور بے ہوش ہوگئے ۔

الغرض انڈین آرمی نے جہاں باقی زخمیوں کو قید کیا وہیں سپاہی مقبول حسین کو بھی اپنی حراست میں لے لیا جنگ کے ختم ہونے پر دونوں ممالک نے جب قیدیوں کی لسٹوں کا تبادلہ کیا توانڈین ٓرمی نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا تذکرہ نہ کیا اس لئے پاک فوج نے بھی گمنام شہداء کی لسٹ میں ڈال کر سپاہی مقبول حسین کا نام بھی یادگار شہداء میں شامل کردیا ۔ انڈین آرمی نے سپاہی مقبول حسین پربے جاتشدد کیا اور ان کو 4x4 فٹ کی کوٹھری میں رکھا جہاں نہ کھڑا ہوسکتا تھا اور نہ لیٹ سکتا تھا دوران تفتیش سپاہی مقبول حسین 40سال تک ظلم و تشدد کی چکی میں پستا رہا لیکن وطن پر آنچ نہ آنے دی سپاہی تشدد کرتے اور کہتے کہ کہو’’پاکستان مردہ باد ‘‘ یہ نوجوان جس کو جسمانی طور پر تو مارمار کر لاغر کردیا گیا تھا لیکن اس کے جذبہ حب الوطنی کو ختم نہ کرسکے یہ نوجوان زور دار آواز سے مسلسل دھاڑتا رہا اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ۔ افسر جب اس کی اس کیفیت کو دیکھتے تو اس کو پاگل پاگل کہتے اور یہ نوجوان آگے سے جواب دیتا کہ ’’ہاں میں پاگل ہوں‘‘ اپنے وطن کی محبت میں میں پاگل ہوں ۔۔۔۔ وطن کے دفاع کیلئے میں پاگل ہوں ۔۔۔۔۔!یہی وہ الفاظ تھے جو بھارتی افسروں کے دل پر ہتھوڑے کی طرح چوٹ لگاتے تھے بھارتی افسروں سے یہ الفاظ باربار نہ سنے جاسکتے تھے اور نہ ہی پاکستان زندہ باد اس نوجوان کی زبان سے سنا جاسکتا تھا جس کو یہ باربار دہراتا تھا انہوں نے اس نوجوان کو یہ سزاد ینے کا فیصلہ کیا کہ اس کی زبان کاٹ دی جائے ۔

بالآخر سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی گئی اور اس کو4x4فٹ کی کوٹھری میں میت لاوارث کی طرح پھینک دیا اور دوران تشدد اس نوجوان کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن بھی نکال دیے گئے حتیٰ کہ دانتوں کو پلاس کی مدد سے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا تاکہ کسی طرح اس کے دل سے پاکستان کی محبت کو ختم کیا جاسکے یہ نوجوان تھا کہ جس نے وطن کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔
بقول شاعر:
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

زبان کٹ جانے کے بعد یہ نوجوان زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو نہ لگا سکتا تھا مگر اس نے چارفٹ کی اس کوٹھری میں وطن کی محبت میں جو کام کیا وہ تاریخ کے سنہرے اوراق میں لکھا جائے گا ۔ سپاہی مقبول حسین نے جسم سے بہنے والے خون سے اس کوٹھری کے فرش اوردر و دیوار پر جابجا اپنے خون سے پاکستان زندہ باد لکھ کر ثابت کردیاکہ کوئی مائی کا لال تشدد کرکے سچے پاکستانی کو فتح نہیں کرسکتا۔
17ستمبر 2005؁ء کو دونوں ممالک نے قیدیوں کا تبادلہ کیا تو بھارت کی جانب سے آنے والے قیدیوں میں ایک ٓدمی ایسا بھی تھا جو جسم سے تو لاغر محسوس ہورہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک تھی جس سے پاکستانیت جھلک رہی تھی ۔سب نے اپنے اپنے گھر کا پتہ بتایا لیکن اس بوڑھے آدمی نے آزاد کشمیر رجمنٹل فورس کا پتہ بتایا وہ بھی زبان سے نہیں بلکہ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ۔ سپاہی مقبول حسین کو مانسرہ کیمپ پہنچا دیا گیا اور کمانڈنٹ آفیسر کے سامنے جب اس کو پیش کیا گیا توا س ظاہری لاغر اور بوڑھے آدمی نے ایک کڑیل جوان کی طرح کمانڈر کو سیلوٹ کیا اور کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ دیے کہ سپاہی مقبول حسین پیٹی نمبر335139ڈیوٹی پر واپس آگیا ہے اور کمانڈ رکے حکم کا منتظر ہے ۔کمانڈنٹ آفیسر نے جب یہ پرچی دیکھی تو حیران رہ گیا اور اس نام اور نمبر کے مطابق کاغذات کی تلاشی کرائی گئی اور اسکے رشتہ داروں کا پتہ لگایاگیا تو معلوم ہوا کہ سپاہی مقبول حسین کے تمام قریبی رشتہ دار بشمول والدین اور بھائی سب اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں ، سپاہی مقبول حسین کا گھر مانسرہ کیمپ ہی ٹھہرا اور یہیں رہائش پذیر ہوئے۔ آخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سپاہی مقبول حسین شدید بیمار ہوئے سی ایم ایچ اٹک میں زیر علاج رہنے کے بعد 29اگست2018؁ء کو ہم سے جدا ہوگئے ۔

سپاہی مقبول حسین جو کہ کشمیر کا رہنے والا تھا تما م کشمیریوں کے سر فخر سے بلند کرگیا او رہمارے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا سپاہی مقبول حسین کا سفر آخرت بڑی شان و شوکت سے اختتام پذیر ہوا اور پوری قوم نے سپاہی مقبول حسین کی قربانیوں کو سراہا اور ہیر و کے لقب سے نوازا ۔ سپاہی مقبول حسین کو ستارہ جرأت سے نوازاگیا اور مانسرہ کیمپ ، راولپنڈی اور تراڑ کھل میں ملی شان و شوکت سے ان کی نماز جنازہ اد ا کی گئی اور ان کو سپرد خاک کردیا گیا ۔ جو اعزاز سپاہی مقبول حسین کو حاصل ہوا یہ صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جن کے دلوں میں جذبہ ایمانی اور جذبہ حب الوطنی موجود ہوورنہ اتنی آسانی سے یہ مقام کسی کو ملنے والا نہیں ۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میر ی مٹی سے بھی خوشبو ئے وفاآئے گی
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.