میڈیا کی اصلاح ،مگر کیسے ؟

تحریر:ارم فاطمہ ،لاہور
یہ ہم سب کا عمومی رویہ ہے کہ جب بھی کہیں دو چار افراد اکھٹے ہوتے ہیں ،اپنے روزمرہ معمولات کو زیر بحث لاتے ہیں،اپنے مسائل پر بات کرتے ہیں، روزبروز بڑھتی مہنگائی کا رونا روتے ہیں،پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہیں،کبھی بچوں کی تعلیم سے بے توجہی کا شکوہ کرتے ہیں، کہیں معاشرے میں بڑھتے جرائم کی بات کرتے ہیں، آج کی نسل اس جرم کی دنیا میں پھنستی جارہی ہے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ تعلیم بہت مہنگی اور عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے، ایک بہت بڑی سماجی برائی جہیز ہے جس کی بنا پر بہت سے گھروں کی بیٹیاں بن بیاہی رہ جاتیں ہیں۔

ان باتوں پہ بات کرتے کرتے ہم لازمی میڈیا کی بات ضرور کرتے ہیں۔ اس پر پیش کیے جانے والے پروگرامز کی بدولت معاشرے پر ہونے والے اثرات کی بات بھی ضرورکرتے ہیں۔ہمیں ایسا لگتا ہے کہیں نہ کہیں ان برائیوں کو بڑھانے میں،معاشرے میں ان کی جڑیں مضبوط کرنے میں میڈیاکا کردار ضرور ہے۔معاشرے کی سماجی،معاشرتی اور مذہبی تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اگر مثبت پہلو کی بجائے منفی پہلو نمایاں ہوگا تو معاشرے میں رہنے والے افراد کی شخصیت میں ان کے رویوں میں منفی باتیں نظر آئیں گی۔

تنقید اپنی جگہ بری چیز نہیں ہے مگر ہم صرف ایک پہلو اور وہ بھی تاریک پہلو کیوں دیکھتے ہیں۔ تنقید وہی اچھی ہوتی ہے جس میں اصلاح کا پہلو بھی موجود ہو۔ صرف برائیوں کا بیان کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ ایسے راستے کی نشاندہی کی جائے جس پر چل کر میڈیا اپنے پروگرامز کو ایسی شکل دے سکے جس کے اثرات معاشرے پربہتر شکل میں سامنے آسکیں۔ افراد کی ذہنی تربیت اور ان کے کردار کی نشوونما کے لیے میڈیا کے کردار کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔

نہایت افسوس کی بات ہے کہ کتاب ہماری زندگیوں سے نکل چکی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کی وجہ سے، بزرگوں کی موجودگی سے بچوں اور نوجوانوں کی جو اصلاح ممکن تھی اسے میڈیا، ویب سائٹس اور موبائل سے بے انتہا محبت نے نا ممکن بنادیا ہے۔ اس لیے معاشرے کی اصلاح اب میڈیا جیسے مضبوط ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار کو ایسی تجاویز دی جائیں جن سے ان کو ایک راہ مل سکے جس سے کہ وہ اپنے پروگراموں کو کار آمد بناسکیں۔

ابتداء کرتے ہیں دستاویزی اور بحث و مباحثہ کے پروگراموں سے جو اب ٹی وی پر پیش نہیں کیے جاتے۔پاکستان ٹیلی وژن پر دستاویزی پروگرامز نہایت بہترین انداز میں پیش کیے جاتے تھے جن میں ملک کے مختلف شہروں کی زندگی،تاریخ، وہاں کی آب و ہوا، سوغاتیں، لوگوں کے رہن سہن، کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔ کافی دلچسپ پروگرام ہوتے تھے۔ ان سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم اپنے ملک کے مختلف حصوں کی ثقافت سے قریب ہورہے ہیں۔یہ ہمارے ہم وطن ہم سے اجنبی نہیں۔بحث و مباحثہ کے پروگرام پیش کیے جاتے تھے جس میں ملک کے ممتاز دانشور اور سکالرز کو بلایا جاتا تھا۔ کسی ایک سماجی موضوع کو لے کر بات کی جاتی تھی ۔ مذہب ،اخلاقیات،سماجی برائیاں اور ان کے سبھی پہلو سامنے لائے جاتے تھے۔ ایسے پروگرامز دیکھ کر انسان ایک لمحے کے لیے سوچتا ضرور ہے اور یہی سوچ میں تبدیلی رویوں میں تبدیلی لاتی ہے۔

میڈیا پر ایسے پروگرام اب صرف سیاست اور کھیل تک محدود ہوگئے ہیں اور شاذونادر ہی پیش کیے جاتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ادب کے حوالے سے کیے مقتدر شخصیات کا انتقال ہوا مگر کہیں بھی ان کی زندگی ،سماجی اور ادبی حوالے سے پروگرام پیش نہیں کیے گئے۔ ادب اور شاعری کے حوالے سے کوئی پروگرام پیش نہیں کیے جاتے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عام انسان کی زندگی میں ادب کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔

آج کے دور کے نہ جانے کتنے ہی نامور سخنور گمنام زندگی بسر کررہے ہیں ان کی زندگی ان کے کام پر مبنی کسی پروگرام کو میڈیا پر جگہ نہیں ملتی یا شاید اب ایسے پروگرام بنائے ہی نہیں جاتے۔ نہ جانے وہ تخلیق کار کہاں گئے جن کی صلاحیتیں کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں تھیں۔کہتے ہیں جب ادب زندگی سے چلا جاتا ہے تو معاشرے میں اخلاقی قدریں ختم ہوجاتی ہیں۔ اخلاقیات،رواداری، اور احساس انسانیت ختم ہوجاتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ہمارے آج کے معاشرے کی ہے۔ اب ہم سبھی میڈیا پر غیر ملکی تہذیب اور ثقافت کے پروگرام بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورک پر پیش کیے جانے والے کتنے ہی پروگراموں میں غیروں کا میوزک اور ان کا کلچر پیش کیا جاتا ہے جس سے ہماری نوجوان نسل ان کی ثقافت کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔ وہ اپنی تہذیب کے بارے میں جانتے نہ ہوں مگر ان کی تاریخ اور رسم و رواج سے بخوبی آشنا ہیں۔

آج اگر ہم دیکھیں کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہمارا میڈیا کیا پروگرام پیش کررہا ہے ؟تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی ایسی پیش رفت ،کوئی ایسی کوشش نظر نہیں آتی۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ ادب رنگ کے حوالے سے مشہور ادباء اور شعراء کی تصنیفات کے تعارف، ان کے موضوع کے بارے میں بات چیت کے پروگرام پیش کریں تاکہ ادب کے موجودہ رجحانات کے بارے میں عام آدمی کو معلومات حاصل ہوسکیں اور جنہیں اس حوالے سے دلچسپی ہے وہ مستفید ہوسکیں۔ اس سے نہ صرف ہم ان ادباء کی شخصیت کے بارے میں جان سکیں گے بلکہ عام آدمی بھی ان سے تعارف کے بعدان کی کتابیں مطالعے کے لیے خریدنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے کتب بینی کو فروغ ملے گا اور مطالعے کا شوق بڑھے گا۔

آج کل میڈیا پر ڈراموں کی بہتات ہے۔ غیر معیاری گھسے پٹے موضوعات پر بنے ڈراموں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ٹی وی پروگرام بس خواتین ہی دیکھتی ہیں۔ انہی کی دلچسپی کے پروگرام ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل اور خاص طور پر بچے موبائل اور وڈیوگیمز تک محدود ہوگئے ہیں۔ نہ ان کی دلچسپی کے پروگرام بنائے جاتے ہیں نہ ان کے ذہن کو علم سے ٓراستہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب ہی وہ دلچسپی اور تفریح کے لیے ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں جس سے ان کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ غلط راہوں پر بھی چل پڑتے ہیں۔

میڈیا کے ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے اگر وہ بچوں اور نوجوانوں کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے، انہیں تفریح فراہم نہیں کریں گے ان کو اپنے ساتھ اپنا حصہ نہیں بنائیں گے تو ان کی چھپی صلاحیتیں کیسے سامنے آئیں گی۔ ان میں کیسے نکھار آئے گا؟ کیسے ہمارے ملک کے ہونہار بچے اور نوجوان دنیا کے سامنے اپنے ملک کی بھرپور نمائندگی کر سکیں گے؟ کیسے ان کے دل میں اپنے وطن کے لیے محبت کا جذبہ پیدا ہوگا اگر انہیں اس معاشرے میں کوئی مقام نہیں ملا تو ؟

یہ بہت ضروری ہے آج کے دور کے حساب سے میڈیا کا مفید استعمال کیا جائے ۔ اس سے معاشرے میں تبدیلی لانے کا کام لیا جائے۔تعلیم کو فروغ دیا جائے۔

محض تفریح کے لیے یا پھر غیر قوموں کی ثقافت پیش کرنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے۔مقصد یہ ہے کہ میڈیا کے حوالے سے اخبارات میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بہت سی تجاویز بھی دی گئیں ہیں مگر ان کا اثر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہمارا میڈیا آج بھی اپنی اسی روش پہ رواں دواں ہے جس پر آج سے کئی سال پہلے تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس بلند مقام پر دنیا کی دیگر اقوام ہیں اور جس طرح جدید سائنس کی ایجادات کو،ویب سائٹس ، اخبارات اور میڈیا کو اپنی کوریج اور ترقی کے لیے استعمال کررہے ہیں، ہم اس کا ایک فیصد بھی استعمال نہیں کررہے۔ ’’ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات ‘‘ کے مصداق کچھ تو اثر ہوتا نظر آئے جیسے کہ اﷲ کے فضل سے ملک کے سیاسی حالات میں تبدیلی آئی ہے اسی طرح ہم میڈیا پر ادب، ثقافت،کھیل، سیاست ،علم وفن کے نئے خوبصورت رنگ دیکھ سکیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024156 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.