ستمبر کا مہینہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے
پاکستانیوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چھے روز جاری رہنے والی اس جنگ
میں پاکستانی افواج اور عوام نے دشمن کے دانت کھٹے کردیئے اور بھارتی آرمی
چیف کے لاہور جیم خانہ میں رات کے کھانے کے خواب کو چکنا چور کردیا۔اسی جنگ
میں عالمی شہرت یافتہ پاکستانی شاہین اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے ایک
منٹ میں 5 انڈین ہنٹر طیارو ں کو مار گرایا، ان پانچ میں سے 4 محض 30 سیکنڈ
میں گرائے گئے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ اس جنگ میں انہوں نے مجموعی طور
پر 9 بھارتی طیارے گرائے تھے۔ اسی جنگ میں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے بھی
بی آر بی نہر پر جام شہادت نوش کیا لیکن دشمن کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔
یوں تو اس جنگ میں بے شمار لوگوںنے یادگار کارنامے سر انجام دیے لیکن اس
جنگ کے ایک ہیرو ایسا بھی تھے جو کہ جنگ ختم ہونے کے 40 سال بعد منظرِ عام
پر آئے۔ جی ہاں میرا اشارہ سپاہی مقبول حسین کی طرف ہے۔ آزاد کشمیر سے
تعلق رکھنے والے سپاہی مقبول حسین کی عمر 1965کی پاک بھارت جنگ کے وقت 20یا
21 برس کے تھے۔مقبول حسین پیٹی نمبر 33351399 جنگ کے دوران بھارت کی قید
میں آگئے۔ بزدل بنیے نے عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبول
حسین کی گرفتار ی کو ظاہر نہیں کیا، اس طرح ان کے بارے میں فرض کرلیا گیا
کہ وہ کسی معرکے میں شہید ہوگئے ہیں، جب کہ سپاہی مقبول حسین نہ صرف یہ کہ
زندہ تھے بلکہ حب الوطنی اور عزم و ہمت کی ایک نئی داستان رقم کررہے تھے۔
دشمن نے انہیںقید کرنے کے بعد ان سے اہم ملکی اور دفاعی راز اگلوانے کی
کوشش کی لیکن بد ترین تشدد کے باوجود مقبول حسین نے اپنی زبان نہیں کھولی۔
انہیں 4X4کی کوٹھڑی میں قید کردیا گیا، وہ اس کوٹھڑی میں نہ ٹھیک طرف سے سو
سکتے تھے نہ بیٹھ سکتے تھے۔ جب دشمن ان کی زبان کھلوانے میں ناکام رہا تو
ان کے سامنے رہائی کی شرط رکھی گئی ، کہا گیا کہ ’’ پاکستان مردہ باد کا
نعرہ لگائو تو جان بچ سکتی ہے۔‘‘ لیکن ا س کے جواب میں مقبول حسین جسم و
جان کی پوری توانائی سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے۔
ہم سے دیوانے کہیں ترک وفا کرتے ہیں
جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں
بزدل بنیا جب ان کے عزم و ہمت کو توڑ نہیں سکا تو اپنی جھلاہٹ اور کھسیاہٹ
مٹانے کے لیے اس نے ایک انتہائی اوچھی اور گھٹیا حرکت کی کہ جس زبان سے
پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند ہوتا تھا، دشمن نے وہ زبان ہی کاٹ ڈالی۔
بھارتی فوجیوں کا خیال تھا کہ اب مقبول حسین پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں
لگا سکے گا لیکن وہ بھول گیا کہ جذبے زبان کے محتاج نہیں ہوتے، محبت اپنے
اظہار کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے اور مقبول حسین کی وطن سے محبت اب اس رنگ
میں ظاہر ہوئی کہ وہ ا س چھوٹی سے کوٹھڑی میں اپنے زخموں سے رستے خون میں
انگلیاں ڈبو کر اپنے لہو سے زنداں کی دیواروں پر پاکستان زندہ باد لکھتے
رہتے۔
40برس بعد جب دشمن نے دیکھا کہ اب سپاہی مقبول حسین بوڑھا ہوچکا ہے تو
انہوں نے ستمبر 2005 کو پاکستان سے قیدیوں کے تبادلے میں سپاہی مقبول حسین
کو بھی رہا کرکے پاکستان بھیج دیا۔ سپاہی مقبول حسین کی حب الوطنی کی
داستان رہائی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ شمعِ وطن کی محبت میں سرشاریہ پروانہ
اب بھی بے قرار تھا، لیلائے وطن کے اس مجنوں کا جنون ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا
تھا، مقبول حسین کا جسم ضرور لاغر ہوچکا تھا، عمر کے لحاظ سے وہ ضرور بوڑھا
ہوچکا تھا لیکن اس کا جذبہ ابھی توانا تھا، اس کی وطن سے محبت اب بھی جوان
تھی۔ 40 برس کی قید کے بعد لوگ اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں سے ملنے کے لیے بے
چین ہوتے ہیں، وہ اپنے شہر، گھر، گائوں ، گلیوں کو دیکھنے کے متمنی ہوتے
ہیں لیکن سپاہی مقبول حسین ان سب سے بے نیاز ایک کاغذ پر ٹوٹے پھوٹے الفاظ
میں آزاد کشمیر رجمنٹ کا پتا لگ کر ایک ایک سے پوچھ رہا ہے۔ دربدر بھٹکتا،
لوگوں سے پتا پوچھتا بالآخر وہ آزاد کشمیر رجمنٹ پہنچ گیا ، وہاں انہوںنے
کمانڈر سے ملنے کی ضد کی، جب انہیں کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا تو عمر
رسیدہ ، کمر خمیدہ ، ناتواں و لاغر مقبول حسین میں نہ جانے کہاں سے طاقت
آگئی اور انہوںنے ایک نوجوان سپاہی کی طرح کمانڈر کو سیلوٹ کیا اور کاغذ
پر لکھا کہ ’’ سپاہی مقبول حسین پیٹی نمبر 33351399 ڈیوٹی پر حاضر ہے اور
اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے۔ اس طرح سپاہی مقبول حسین 40 سال کی سخت
ترین قید کاٹنے کے بعد بھی اسی جذبے اور جنون کے ساتھ وطن کی خدمت کے لیے
حاضر ہوگیا۔ان کی ہمت و جرات کے اعتراف میں انہیں ستارہ جرات سے نواز ا
گیا۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے اس عظیم ہیرو نے گزشتہ ہفتے 28 اگست 2018 کو اس
دارِ فانی سے کوُچ کیا۔ سپاہی مقبول حسین تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن
انہوں نے ایثار، قربانی اور حب الوطنی کی ایسی داستان رقم کی ہے جو رہتی
دنیا تک لوگوں کو یاد رہے گی۔ درحقیقت ایسے ہی سرپھروں اور دیوانوں کی ہی
وجہ سے دنیا میں پاکستان اور پاکستانی فوج کا نام و مقام ہے۔ آیے ہم بھی
اس عظیم سپاہی کو ایک سیلوٹ پیش کریں۔علامہ اقبال نے شاید ایسے ہی بہادر
اور دیوانوں کے لیے کہا تھا
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی |