تعلیم، پہلی ترجیح!

 حکومت بدلتی ہے تو بہت سے اداروں اور افراد پر اَن دیکھے خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ خاص طور پر خود مختار ادارے یا کسی حکومت کا خاص منصوبہ اکثر زیر عتاب آجاتا ہے۔ آنے والی حکومت بعض اوقات اچھے کام کو بھی روک دیتی ہے، کیونکہ اس کے خیال میں اس کام کا کریڈٹ سابق حکمران کو جارہا ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے اقتدار میں آکر بہت سے ہسپتالوں اور دیگر منصوبوں کو سالہا سال اس لئے فنڈز جاری نہ کئے کہ یہ پروگرام چوہدری پرویز الہٰی نے شروع کروائے تھے۔ بعض منصوبے اس قدر کامیاب ، مقبول اور عام آدمی کے اس قدر مفاد میں تھے کہ انہیں روکنا ممکن نہ ہوسکا۔ اب موجودہ حکومت نے بھی حسبِ سابق تعلیم کو ہی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ یقینا یہ شعبہ پہلی ترجیح کا مستحق ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے نشریاتی خطاب میں اپنی ترجیحات کے خدوخال بیان کئے تو یہ بھی بتایا کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے بہت سے اقدام کئے جائیں گے، جن میں ایک یہ بھی ہوگا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری پر بھر پور توجہ دی جائے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہوگی کہ سرکاری سکولوں میں شام کی کلاسز کا اجرا کیا جائے گا تاکہ سکول سے باہر کوئی بچہ نہ بچے۔ سابق حکومت نے بھی اپنے تئیں سرکاری سکولوں پر کافی توجہ دینے کی کوشش کی۔ بچوں کے داخلوں، حاضری اور اساتذہ کی حاضری تک پر کافی توجہ دی گئی، سکولوں کی عمارات اور دیگر ضروری سہولتوں پر بھی سرمایہ خرچ کیا، تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود بہت خاطر خواہ تنائج حاصل کرنے میں کامیابی نہ ہو سکی، کیونکہ اساتذہ کے بہت سے تحفظات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ ان کو تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ بھی بہت سے دھندوں میں مصروف رکھا جاتا ہے، وہ یکسوئی سے تعلیم پر توجہ نہیں دے سکتے۔

سرکاری سکولوں کے علاوہ چوہدری پرویز الہٰی کے دور میں پنجاب میں ’’پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ کے قائم شدہ ادارے کو فعال کیا گیا تھا، بہت کم فیس لینے والے نجی سکولوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر ان میں موجود تمام بچوں کی فیس ختم کردی گئی تھی، یہ فیس پیف کے ذمے تھی، بچوں سے کسی بھی مد میں ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ پنجاب حکومت کی یہ سکیم اس قدر کامیاب ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں سکولوں کا پیف سے الحاق ہوگیا، اب ان سکولوں کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے، جہاں پچیس لاکھ سے زائد بچے مفت اور معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کی طرف سے سال میں ایک مرتبہ بچوں کا امتحان لیا جاتا ہے، سکول کے الحاق کا دارو مدار اس کے نتیجہ پر ہے۔ مانیٹرنگ کا سخت نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہے۔ آغاز میں ڈاکٹر اﷲ بخش ملک کی سربراہی میں یہ ادارہ اصولوں کی بھر پور پاسداری کرتا رہا۔ مگر ا ب کچھ عرصہ سے سکولوں کی کی جانے والی ادائیگیوں میں اس قدر تاخیر ہوتی ہے، کہ سکولوں والوں کی بقا مشکل ہو جاتی ہے، ظاہر سے ساڑھے پانچ سو فی بچہ فیس کی وجہ سے اساتذہ کی تنخواہیں بھی بہت کم ہیں، مگر جب مہینوں تک پے منٹ نہیں ہوتی، تو مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔ 2016ء میں حکومت نے وہ سرکاری پرائمری سکول جو بری طرح ناکام ہو چکے تھے، نجی شعبہ میں دینے کا فیصلہ کیا، ان میں بہت سے سکول فاؤنڈیشن کے پارٹنرز کو دیئے گئے، کچھ این جی اوز کو اور کچ ذاتی حیثیت میں بھی دیئے گئے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر احتجاج ہوا، مگر بہت جلد یہ حقیقت سامنے آگئی کہ جس سکول میں پچاس بچے نہیں تھے، فاؤنڈیشن کے پاس جانے کے بعد وہاں ایک سال میں دو سو بچے ہوگئے۔ ایسے سکول بھی موجود ہیں جہاں یہ تعداد ڈبل فگر میں نہیں تھی اب ’فور فگر‘ میں ہے۔ فاؤنڈیشن کے رزلٹ کا معیار بھی 75فیصد بچوں کے پاس ہونے کا ہے، کم پر سکول فیل قرار پاتا ہے۔

اب نئی حکومت کے آنے سے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور خاص طور پر سرکاری پرائمری سکولوں کا ادارہ Punjab Educatoin Initiatives Managment Authorty(PEMA) پر خطرات کے سائے گہرے ہو رہے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ ادارے ختم ہو جائیں اور صورت حال پہلے جیسی ہو جائے، مگر ہنگامی اور غیر مستحکم حالات میں افواہیں بہت کام دکھاتی ہیں، یقینا وقت کے ساتھ ساتھ یہ افواہیں بھی دم توڑ جائیں گی، اور غیر یقینی کے باد ل چھٹ جائیں گے، مگر حکومت کو بہرحال اہم فیصلے کرتے وقت بہت گہرے مشاہدے سے کام لینا چاہیے۔ کونسا منصوبہ کس نے شروع کیا ہے؟ مفادِ عام میں وہ کس قدر ٹھوس کردار ادا کر رہا ہے؟ ملک وقوم کے بہترین مفاد میں اس کا ختم کرنا ہے یا اسے جاری رکھنا؟ ہر منصوبے پر ہر پہلو سے غور کرنے اور جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے۔ یقینا حکومت کے پاس ایسا کوئی بندوبست نہیں کہ جس میں پیف وغیرہ سے فارغ ہونے والے لاکھوں بچوں کو کھپایا جا سکے۔ ابھی تو کروڑوں بچے ویسے ہی سکولوں سے باہر ہیں، انہیں سکول لانے کے لئے بندوبست کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ جو پہلے پڑھ رہے ہیں، انہیں نکال باہر کیا جائے۔

اب حالات کا تقاضا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ سکولوں سے باہر کے تمام بچے سکولوں میں آئیں، تاکہ آنے والے سالوں میں شرع خواندگی قابلِ رشک ہو سکے، اور حکومتوں اور معاشروں کی بے حسی کی وجہ سے اپنا مستقبل تاریک کرلینے والے بچے بھی علم کے نور سے روشنی حاصل کرسکیں۔اس کے لئے ایک تو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی طرز پر خیبر اور بلوچستان میں بھی ادارے قائم کئے جانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ جو سرکاری سکول نجی شعبہ میں جاکر سرکاری خرچ سے نصف سے بھی کم خرچ پر بہتریں نتائج فراہم کررہے ہیں، انہیں نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ فاؤنڈیشن کی ابھی تک تو نیک نامی موجود ہے، اب نئی حکومت میں بھی یقینا اسی رویے کی تقویت ملے گی۔ تین برس سے فاؤنڈیشن کی سکولوں کی دی جانے والی پے منٹ میں اضافہ نہیں ہوا، جبکہ مکانوں کے کرایوں سمیت تقریباً تمام شعبوں میں ہر سال دس فیصد اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ جیسے سرکاری ملازمیں کی تنخواہ میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے، اسی حساب سے فاؤنڈیشن کے فنڈ میں بھی اضافہ کیا جائے، اور یہ پے منٹ ہر ماہ کے آغاز میں کردی جائے۔ ہزاروں روپے فیس لینے والے نجی سکولوں کا مسئلہ تو الگ ہے، مگر یہ بہت ہی کم فیس سکولوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی آن پڑا ہے کہ سابق حکومت جاتے جاتے (اپریل 18ء) میں بجلی کے کے ٹیرف کو کمرشل کر گئی ہے۔ جس سے عام غریب سکول کو بھی ہزاروں روپے بجلی کا بل آرہا ہے، تعلیم عام کرنے کے راستے میں یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے، یہ بل ڈومیسٹک ہونا چاہیے۔ ان اداروں کو آسانیاں دی جائیں تاکہ علم کی روشنی پھیلانے کے عمل میں یہ سکول حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کر سکیں۔

 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472207 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.