یوم شہداء

یوم دفاع سال میں ایک بار منایا جاتا ہے۔ جو 6ستمبر 1965کی یاد دلاتا ہے۔ آج یہ دن یوم شہداء کے طور بھی منایا جا رہا ہے۔ پاک فوج کے ان شہداء کو خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے جو دفاع وطن پر قربان ہو گئے۔ہم ہر چیز کو منانے کیلئے ایک دن کا انتخاب کر رہے ہیں۔ یہ ایک فیشن ہے۔ مگرملکی دفاع کے حوالے سے کم از کم ایک دن نہیں چنا جا سکتا۔ سال میں 365ہی نہیں بلکہ پورے365-1/4دن دفاع کے ہیں۔ یہ سب یوم دفاع ہیں۔ کیوں کہ مشرق اور مغرب میں دشمن آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے تاک میں ہے۔ کہتے ہیں جب شیر کا سامنا ہو جائے تو پھر یہ طاقت کی نہیں بلکہ اعصاب کی جنگ ہوتی ہے۔ شیر آنکھ میں آنکھ ڈالتا ہے۔ آنکھ چپکی۔ تو سمجھیں کہ شکست کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ پھر کلمہ پڑھ لیں۔یہاں بھی یہی حال ہے۔ آپ کی آنکھ چپکی ۔ تو سمجھ لیں کہ دشمن نے وار کر لی۔ یہاں دشمن کو شیر سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ شیر بہادر جانور ہے۔جنگل کا بادشاہ ہے۔ یہ دشمن بزدل اور ڈرپوک ہے۔ مگر دشمن تو دشمن ہوتا ہے۔ کتا اگر سویا بھی ہو، سفید ہو یا کالا، رنگت بے معنیٰ ہے، تو اس کا بھروسہ نہیں۔ کب کاٹ کھانے کے لئے حملہ کر دے۔ ملکی دفاع اور سلامتی کے لئے قربانیاں دینے والوں کا بھی کوئی ایک دن نہیں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہر دن یوم شہداء ہے۔ ہر دن یوم دفاع ہے۔ جان سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔ جان ہے تو جہاں ہے۔ انھوں نے اپنا آج قوم کے کل ہر قربان کیا۔ یہ نوکری یا پیسے کا کھیل نہیں۔ بلکہ جوش و جذبہ ہے۔ ایک کاز ہے ۔ مشن ہے۔ کشمیر میں جب بھارتی فوجی پر حملہ ہوتا ہے تو وہ اپنی جان بخشی کی بھیک مانگتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے اپنا پیٹ پالنے ، بچوں کے لئے نوکری کی ہے۔ غلطی سے وہ فوج میں آگیا۔ کئی مواقع پر بھارتی فوجیوں نے مجاہدین سے ڈیل کر لی۔ جب سیکڑوں کی تعداد میں مجاہدین عسکری تربیت کے بعد بھارتی فوجی کیمپوں اور پوسٹوں سے گزرنے لگے تو بھارتی فوجیوں نے اپنی جان بخشی کے لئے سفید جھنڈے لہرا دیئے۔ ان پر حملے نہ کرنے کی اپیلیں کیں۔ بھارتی فوج نے مجاہدین کو اسلحہ بھی سپلائی کیا ہے۔وہ پیسے کے لئے پٹرول اور ڈیزل بھی بیچ کھاتی ہے۔ ان کے فوجیوں کا راشن تک بازاروں میں بک جاتا ہے۔

مسلمان نوکری یا بچوں کے لئے فوج میں نہیں آتا۔ مسلمان فوجی مجاہد ہوتا ہے۔ وہ شہید ہوتا ہے یا غازی بنتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کامیابی ہے۔ پاک فوج کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ مجاہدین کی فوج ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس فوج کے بارے میں مسلسل یہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ ملک کا سارا بجٹ یہ کھا جاتی ہے۔ اصل میں یہ دشمن کا وار ہے۔ جو لوگ یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں ۔ وہ دشمن کے پروپگنڈہ سے مرعوب ہوئے یا دوست کے روپ میں دشمن بنے۔ جن کا مقصد اقتدار یا مفادات ہے۔ تا کہ یہ ملکی وسائل پنی زات پر استعمال کریں ۔ کوئی انھیں کچھ نہ کہے۔ ملکی دولت کو لوٹ کر باہر لے جائیں۔ لیکن ان پر کسی طرف سے کوئی انگلی نہ اٹھے۔ یہ جمہوریت کی بھی اسی لئے بات کرتے ہیں۔ تا کہ اس کے لبادے میں وہ من مانی کریں۔ ایسی جمہوریت کس کام کی۔ اس کا کیا فائدہ۔ جو غریب کے منہ سے نوالے چھین لے۔ جس میں غریب کا بچہ سکول کی فیس نہ دے سکے۔ جس میں لوگ علاج کو ترسیں۔ بے موت مریں۔ ملک پر عوام کی مرضی کی حکمرانی ہو۔ لیکن کیا یہاں ایسا ہے۔ مرضی لیند لارڈ کی ہے۔ جاگیرادر کی ہے۔ وڈیرے کی ہے۔ جس کے آگے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ ڈی سی، ایس پی، تھانہ دار، پٹواری، تحصیلدار، سب اس کے غلام ہیں۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ ووٹ کس کو دینے ہیں۔ وہ چاہے تو چند سکوں میں ووٹ خرید لیاتا ہے۔ اس جمہوریت کا رونا اسی لئے رویا جاتا ہے ۔ تا کہ وڈیرے ، جاگیردار، سرمایہ دار یا ان کے ایجنٹ اقتدار میں آئیں۔پاکستان میں ان ہی لوگوں کی حکمرانی ہے۔ وہ اپنے گروہ کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں۔ غریب کا خون نچوڑنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہیں۔ آج جس طرح ہارس ٹریڈنگ ہوئی، یہ اس کی مثال ہے۔

یہ ایسا نظام ہے جس میں کوئی غریب الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے یہی لوگ جمہوریت کے راگ الاپتے ہیں۔ فوجی آمریت کے چرچے کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ فوج میں بھی طبقہ بندیاں بن رہی ہیں۔ جنرل کا بیٹا ہی جنرل بن رہا ہے۔ غریب فوجی سپاہی کا بیٹا ایک سکول میں پڑھتا ہے۔ افسر کا بیٹا دوسرے سکول میں زیر تعلیم ہے۔ یہ طبقہ بندیاں ہیں ۔ جو مفاد خصوصی کے ہی در پر دستک دیتی ہیں۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ لیکن یہ سچ ہے۔ یہ کوئی لزام تراشی نہیں۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔ یہ یقینی بنایا جائے۔ سہولیات ایک سپاہی اور ایک جنرل کو ایک جیسی ملیں۔ یہ پروٹوکول تباہ کن چیز ہے۔ یہ چھوت چھات ہے۔ اس کا دفاع نہیں ہونا چاہیئے۔ اسلام نے کسی بادشاہ کے در پر دربان تک رکھنے کی سزا دی ہے۔ امیر وہ جس کا پہرہ دار نہ ہو۔ اگر بلٹ پروف بکتر بند گاڑیاں ہیں تو ایسا حکمران مخلوق خدا کی کیا حفاظت کرے گا۔

یوم دفاع کا تقاضا ہے کہ مشرق اور مغرب میں مورچہ بند یا پیش قدمی کرتے دشمن کا مقابلہ ہی نہ کیا جائے۔ ہر وقت الرٹ رہا جائے۔ ہمارے اندر بھی ایک دشمن چھپا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ اونچ نیچ، تعصب، انا، مفاد پرستی ہے۔ جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ دھرتی کے جن سپوتوں نے دشمن کا ہر وقت مقابلہ کیا۔ 1947، 65، 71،1999اور آج تک مختلف محازوں پر انہوں نے قربانیاں دیں۔ یہ آج کراچی میں، قبائلی علاقوں میں بھی ضرب عضب کے بعد ردالفساد مشن میں قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔ ان قربانیوں کی وجہ سے اہل وطن آرام اور سکون سے سوتے ہیں۔ یہ سرحدوں، پہاڑوں،دروں، سیاچن گلیشئرز، ریگستانوں، بیابانوں، سمندروں،تپتے صحرامیں رات دن جاگ کر ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں طوفانوں، آندھیوں، دھوپ، بارش، گرمی ، سردی کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ ہر وقت دشمن کے نشانے پر ہیں۔ انہیں جان کی کوئی پرواہ نہیں۔ ملک وقوم پر ہر وقت یہ جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔ اس لئے یہ کسی ایک یوم دفاع کے محتاج نہیں۔ ان کے لئے ہر دن یوم دفاع اور ہر رات شب دفاع ہے۔ ان شہداء کو جتناخراج عقیدت اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے، کم ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555476 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More