کیپٹن بلال ظفرعباسی شہید

دھن بھاگ نیں اُہناں ماواں دے
جنہاں ماواں دے لال نیں
دھن بھاگ نیں بھین بھراواں دے
جنہاں گودیاں ویر کھڈائے نیں
درد وچھوڑا کیا ہوتا ہے ایک ماں سے زیادہ اور کوں جا سکتا ہے مگر قربان ایسی ماؤں کی ہمت اور جرات پر جو اپنے لخت جگر کو ہنستے ہوئے رخصت کر دیتی ہے حالانکہ وہ جانتی ہے کہ میرا لال محاذ پر جا رہا جس کا واپس لوٹنا محال ہوگا وہ وطن عزیز کی عزت و حرمت پر قربان ہو نے جا رہا ہے اور جب سبز حلالی پرچم میں اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے جسد خاکی کو پیش کیا جاتا ہے تو نہ آنکھوں سے اشک رواں ، نہ ہونٹوں پر لرذہ، نہ سینہ کوبی بلکہ فخر و انسباط کا اظہار کر تی ہے۔ ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں ایک عظیم ماں اپنے عظیم المرتبہ بیٹے کی شہادت پر گفتگو کر رہی تھیں اُن کے جرات مندانہ لب و لہجے سے لگ رہا تھا کہ شہید ان کا ہی بیٹا ہو سکتا ہے ۔وہ جیسے جیسے اپنے بیٹے کی بہادر ی شجاعت کے کارنامے بیاں کر رہی تھیں کوئی ایسی آنکھ نہ ہوگی جو اشکبار نہ ہو اور شہید کے درجات کے لیے دعا گو نہ ہو۔کتنا بڑا جگر ہوتا ہے اُن بہنوں کا جو اپنے بھائیوں کو وطن عزیز پر قربان کر دیتی ہیں لیکن دشمن کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتی۔وہ باپ کتنا خوش قسمت ہو تا ہے جو اپنے جوان بیٹے کی لاش پر صف ماتم نہیں بلکہ اﷲ کے حضور سجدہ ِ شکر بجا لاتا ہے۔وہ بوڑھی ماں شیر کا جگرہ لیے جیسے جیسے اپنے بیٹے کی داستان حیات بیان کر رہی تھی آنسووؤں کی جھڑی بے اختیار جاری تھی۔ اور ہر دیکھنے والے کے دل میں یہ دعا نکل رہی ہوگی’’اے اﷲ ہمیں بھی ایسی ہی اولاد نصیب فرما جو وطن عزیز پر قربان ہو جائے اور ایسی بہادر ماں کا سایہ ہمیشہ ہمارے ملک پر قائم رکھنا۔

2 فروری 1982ء کو راولپنڈی کے ایک بہادر انسان کیپٹن (ر) ظفر تجمل عباسی کے گھر آنکھ کھولی۔ فوجی ماحول میں پلا اور بڑا ہوا۔ فوجی لوریاں مقدربنیں۔ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے ایک بجی سکول سے حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، اسکے بعد انہوں نے 2001 پاک فوج 42 بلوچ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔یہاں ایک اچھی بات بیاں کرتا چلوں کہ کیپٹن بلال ظفر کا سار اخاندان ہی فوج کے ساتھ وابستہ تھا ان کے والد کیپٹن (ر)ظفر تجمل بھی پاک آرمی سے ریٹائرڈآفیسر تھے جبکہ کہ ان کے دادا یعنی ظفر تجمل کے والد صاحب بھی آرمی میں آٖفیسر تھے کرنل تجمل حسین برٹش انڈین آرمی میں اپنی جرات و بہادری کے جھنڈے گاڑھ رکھے تھے انہوں نے جنگ عظیم دوئم میں حصہ لیا تھا اور ان کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد انہوں نے اعزازی طور پر پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور کشمیر کی جنگ میں نمایا ں کا ر کردگی کا مظاہرہ کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کیپٹن بلال کے پڑدادا صوبیدار لال خان بھی فوج میں اپنی خدمات دے چکے تھے اور جنگ اول میں شہادت حاصل کر چکے تھے ان کو برٹش آرمی کا دوسرا بڑا اعزاز بھی دیا گیا۔ یوں اگر بات کی جائے تو کیپٹن ظفر شہید کی رگوں میں جرات و بہادر ی اور وطن کے ساتھ وفا کا خون شامل تھاتو کیسے ممکن وہ بہادری او ر شجاعت کے علمبردار نہ ہوتے ؟وطن کے ساتھ محبت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر ا ہوا تھا۔ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ وطن عزیز کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کریں۔

پاکستان دو دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے اور دشمن اس مملکت خداداد کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش میں لگا ہو ا ہے جسے وطن عزیز کی پاک فوج کے جوانوں نے اپنے مقدس لہو کی قربانیوں سے نیست و نابود کر رکھا ہے۔ آپریشن جانباز کے لیے کیپٹن ظفر کا نام بھی شامل تھا جسے انہوں نے ہنستے ہوئے قبول کیا ۔وہ چاہتے تھے کہ دشمن کو ایسی سزا دیں کہ وہ صدیوں یا د رکھے اور پاکستان کے طرف میلی آنکھ اُٹھانے کی جرات نہ کرے ۔کیپٹن بلال ظفر کو آپریشن جانباز کے دوران سوات میں آپریشن کے دوران جو علاقہ دیا گیا وہ انتہائی کٹھن اور دشوار گذار تھا پچھوڑ روڈ ویلی پر دہشتگردوں کا قبضہ تھا جس کی وجہ سے آپریشن میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تھی اس علاقے کو خالی کرانے کا ٹاسک کیپٹن بلال ظفر اور ان کے ساتھ پچاس کے قریب ساتھیوں کو دیا گیا۔

پیچھور ویلی کا علاقہ انتہائی دشوار گذاراور خطرناک علاقہ بن چکا تھا،دہشت گرد اس علاقے سے خوب واقف تھے اس لیے انہوں نے پاک فوج کے آگے جانے کے راستے روک لیے تھے ۔اس میں غاریں اور کھائیاں ایسی تھیں ۔ایسے مشکل ترین علاقے میں کھانا پینا اور سونا ناممکن تھا،آرام کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی،17 مئی 2009 کواس علاقے کو کیپٹن بلال ظفر نے کلئیر کراتے ہوئے اس وقت اپنی جان اﷲ کے سپرد کردی جب دشمن کیپٹن بلال ظفر کو دیکھ رہا تھا اور وہ ایک پتھر کی آرھ میں بیٹھے اس ظالم سفاک درندے نے ایک لانچر سیدھا کیپٹن بلال ظفر کی طرف چھوڑا جو اِن کے سینہ پر آن لگا اور وہیں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔کیپٹن ظفر نے اپنے پچاس ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کو دشمن سے آزاد کرالیا۔کیپٹن بلال ظفر نے اپنی جان وطن عزیز پر قربان کر دی ان کی بہادری اور جرات پرحکومت وقت نے 62ویں یوم آذادی کی ایک تقریب میں ان کو ستارہ ِ بصالت سے نوازا۔کیپٹن بلال ظفر نے 2003 سے 2009 تک اپنی خدمات انجام دیں۔ستائیس سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرنے والے اس جوان کو وطن کا ہر محب شہری سلام عقیدت پیش کرتا ہے۔

وہ بہادر ماں ڈائس پر کھڑی اپنے بیٹے کے بارے بتا رہی تھی کہ میرا بیٹا بہت بہادر تھا اور مجھے اس کی بہادری پر فخر ہے وہ اپنے پچاس ساتھیوں کے ساتھ تھا یہ بہت ہی مشکل آپریشن تھااسے زانوں سر کی چوٹی سر کرنی تھی وہ بہادری کے ساتھ آگے بڑھتا گیااور دس دن کی مسلسل محنت کے بعد وہ اسے سر کرنے میں کامیاب ہوا۔وہ اپنی ماں سے مخاطب ہوتے اکثر کہا کرتا تھاماں جی گولی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب بھی لگا تیرے بیٹے کو گولہ لگے گا۔اور اس بیٹے کی یہ خواہش بھی اﷲ کریم نے پوری فرمائی ۔ وہ ماں بتاتی ہیں جب میں نے اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا اور میں نے اﷲ کریم کا شکراد ا کیا کہ اے پروردگار تُو نے میرے بیٹے کی شہادت کی خواہش کو پور ا فرمایا ۔اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کے امن کوبحال رکھنے ، سرحدوں کی حفاظت کرنے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یہ جوان ہمارا فخر ہیں اور ہمیں ایسی ماؤں پر ناز ہے جو کیپٹن بلال ظفر جیسے سپوت پید ا کرکے وطن عزیز کی حُرمت پر قربان کر دیتی ہیں ۔کیپٹن بلال ظفر اپنے آبائی گاؤں کہروڑ کوٹلی ستیاں میں مدفوں ہیں ۔ ۔ تحصیل کوٹلی ستیاں ضلع راولپنڈی، پنجاب، پاکستان کی آٹھ تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے ۔ پاک فوج زندہ باد۔پاکستان پائندہ باد

 

M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 54916 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More