نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب ؐکی حرمت پر

یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے۔ کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا۔ کبھی صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے۔ کبھی کسی صحابی رضی اﷲ عنہ نے حب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گستاخ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اﷲ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاء علیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے۔ رسوائی مقدر بن جائے گی۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اﷲ رب العزت اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں۔( 33/احزاب 57 )۔ ‘‘
بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا۔ جو کچھ کیا۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے آکر کہا۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے گستاخ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا حکم :حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ : ( رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1 )
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا فتویٰ :حضرت ابوبرزہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ : میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا۔ میں نے عرض کیا۔ اے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلیفہ۔ مجھے اجازت دیں۔ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا۔ میں نے کہا۔ کہا تھا۔ کہ آپ رضی اﷲ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اﷲ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ نہیں۔ اﷲ کی قسم۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی۔عصماء بنت مروان کا قتل :اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ خَطمَہ ‘‘ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو کی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس عورت سے کون نمٹے گا۔ ‘‘ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔
عصماء بنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا۔ تو کہنے لگا۔ اے اﷲ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی۔ پھر نماز فجر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے۔ جی ہاں۔ میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قربان ہوں اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا۔ کہنے لگے۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں۔ پس یہ کلمہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔
( الصارم المسلول 130 )ابوعفک یہودی کا قتل :شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ مورخین کے حوالے سے شاتم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ :
بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے کامیابی عطاء فرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اﷲ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اﷲ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے۔انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی :انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انس بن زنیم الدیلمی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ ( الصارم المسلول139 )گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ایک عورت :ایک عورت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
من یکفینی عدوی ’’ میری دشمن کی خبر کون لیگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا۔ ‘‘
( الصارم المسلول163 )مشرک گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قتل :حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :
’’ مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالی دی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ کو دے دیا۔ ‘‘کعب بن اشرف یہودی کا قتل :کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا۔ اور کہنے لگا۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثیے لکھے۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا دین۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی حرکات کی وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنایا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بقیع کی قبرستان تک چھوڑنے آئے۔ چاندنی رات تھی پھر فرمایا جاؤ۔ اﷲ تعالیٰ تمہاری مدد کرے۔حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ :
’’ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ 8وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا۔ اس نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! کو تکلیف دی ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے۔ اور عرض کی۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ مجھ کو یہ پسند ہے۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیں یعنی ایسے مبہم کلمات اور ذومعنیٰ الفاظ جنہیں میں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اجازت ہے۔ ‘‘
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ یہ شخص ( اشارہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہمیں تھکا مارا ہے اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ جواباً کعب نے کہا۔ ابھی آگے دیکھنا اﷲ کی قسم بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا۔ چونکہ ہم نے اب ان کی اتباع کر لی ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ میں تم سے ایک دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں کعب نے کہا۔ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو۔ محمد بن مسلمہ نے کہا۔ تم کیا چیز چاہتے ہو۔ کہ میں گروی رکھ دوں۔ کعب نے کہا۔
اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کعب نے کہا۔ پھر اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو۔ محمد بن مسلمہ نے کہا۔ ہم اپنے بیٹوں کو گروی کس طرح رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اس پر ہر کوئی گالیاں دے گا کہ آپ کو ایک دو وسق غلے کے عوض گروی رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لئے بڑی عار ہو گی البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروی رکھ سکتے ہیں جس پر کعب راضی ہو گیا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ میں دوبارہ آؤں گا۔
دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھی تھے یہ کعب کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا۔ تو اس کی بیوی نے کہا مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب دیا کہ یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں اگر شریف آدمی کو رات کے وقت بھی نیزہ بازی کیلئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھی تھے۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے سر کے بال ہاتھ میں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا۔ محمد بن مسلمہ نے کہا۔ میں نے آج سے زیادہ عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی۔ کعب نے کہا۔ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو عطر میں ہر وقت بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں محمد بن مسلمہ نے کہا۔ کیا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا۔ دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا۔ اجازت ہے۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوری طرح سے اسے قابو کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔
پھر رات کے آخری حصے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے۔ انہوں نے جواباً عرض کیا ووجھک یا رسول اﷲ سب سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ، اے
 

Muhammad Shahid Mehmood
About the Author: Muhammad Shahid Mehmood Read More Articles by Muhammad Shahid Mehmood: 2 Articles with 1002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.