صحابہ کرام معیار ِایمان

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

صحابی، صحبت سے ہے، صحابی سے مرادوہ شخص ہے جسے اپنی زندگی میں بحالت اسلام اپنی آنکھوں سے براہِ راست رسول اﷲﷺکے دیدارکاشرف نصیب ہوا،اورپھروہ مسلسل تادمِ آخردینِ اسلام پرقائم رہا،اوراسی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔(شرح عقیدۃ الطحاویۃ)گویاجماعت صحابہ ان مقدس شخصیات کو کہا جائے گا جن کو براہ راست خاتم الانبیاء وامام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت نصیب ہوئی ،اور انہوں نے انوارات ِنبوت سے اپنے قلوب کو منور کیا، پیغمبر اسلام ﷺسے اﷲ کریم کا کلام سیکھا،کتاب و حکمت سے بہرہ مند ہوئے اورقلوب و نفوس کی پاکیزگی حاصل کرکے ھدایت یافتہ اور ایمان کا معیار ٹھہرے ۔اﷲ کریم نے ایمان و تقویٰ کو ان کے لیے سب سے محبوب شے بنا دیا تھا یہی وجہ ہے کہ امت میں اعلیٰ مقام و مرتبہ کے حامل علماء،اولیاء اور مشائخ سب مل کر ادنیٰ صحابی کے مقام ومرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا''محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحیم ہیں، تو ان کو دیکھے گاکہ وہ اﷲ کے فضل و رضا کی تلاش میں رکوع و سجدہ کر رہے ہیں، سجدے کی تاثیر سے ان کے چہروں پر ان کے آثار ِنماز ہیں،یہ ان کے اوصاف، تورات میں ہیں اور ان کی مثال انجیل میں یہ ہے کہ جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے سوئی کو مضبوط کیا پھر وہ اور موٹی ہو ئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہو نے لگی،تاکہ کافرلوگ ان سے جلیں،اﷲ نے ان ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔(الفتح۔29)

صحابہ کرام معیار ایمان ہیں،اور کامیابی و ہدایت کے لیے ایسا ہی ایمان مطلوب ٹھہرا،اﷲ کریم کا ارشاد مبارک ہے ''اگر وہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو،تب وہ راہ راست پر آ جائیں گے''۔(البقرۃ۔137)نبی کریم ﷺ نے جماعت صحابہ کو نجوم ِہدایت ارشاد فرمایا ،آپ ﷺکا ارشاد مبارک ہے ''میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں،ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے،ہدایت پا جاؤ گے(صحیح بخاری) رسول اﷲ ﷺ کی مکی زندگی ہو یا مدنی،شعب ابی طالب ہو یا غزوات وسرایا،ہجرت کے گھٹن مراحل ہوں یا فتوحات کے مواقع،الغرض ہرلمحہ اور ہرگھڑی صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتے رہے،یہاں تک کہ اﷲ کریم نے ان ہستیوں سے راضی ہو کرقرآن پاک میں ارشاد فرمایا''اﷲ ان سے راضی اور خوش،اوریہ اﷲ سے راضی اور خوش ہیں۔''

رسول اﷲ ﷺ کی عالی صفات کا ''پَرتَو''یہی نفوس قدسیہ تھیں،آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے،میری امت میں میری امت پر سب سے رحم دل ابوبکر ہیں،اﷲ کے احکام کی تعمیل میں سب سے سخت عمرہیں،ان میں سب سے زیادہ حیا کے اعتبار سے بڑھے ہوئے عثمان ہیں،سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔(جامع ترمذی)جب کہ دور نبوت اور دور صحابہ و تابعین کو بہترین زمانہ قرار دیا گیا،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایابہترین لوگ وہ ہیں جومیرے زمانے میں ہیں ٗ پھروہ لوگ جو اُن کے بعد اورپھروہ لوگ جو اُن کے بعد(صحیح مسلم) نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کیوجود مسعود باعث ِخیرو برکت کا ذریعہ ارشاد فرمایا،چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشادنقل فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا '' ستارے آسمان کے لیے امان ہیں، جب ستارے جھڑجائیں گے تو آسمان بھی اس چیز کو لے آئے گا جس کا اس سے وعدہ کیا گیاہے، اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں، اور جب میں فوت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں جب میرے صحابہ ختم ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آئے گا جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم)حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے امت کو صحابہ کے اکرام،عزت وناموس کی پاسداری و حفاظت کا حکم دیا '' حضرت عبد اﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا!اﷲ سے ڈرو! اﷲ سے ڈرو، میرے صحابہ کے بارے میں! میرے بعدان کو ہدفِ ملامت نہ بناؤکیونکہ وہ جوان سے محبت کرتاہے، وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتاہے اور جوان سے بغض رکھتاہے، وہ میرے سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتاہے اورجوان کو تکلیف پہنچاتاہے وہ مجھے تکلیف پہنچاتاہے اورجومجھے تکلیف دیتاہے، وہ اﷲ کو تکلیف دیتاہے اورخداکوتکلیف دینے والا قریب ہے کہ پکڑاجائے۔(سنن ترمذی)‘‘

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ پیغمبراسلام ﷺ سے مکمل دین،علوم،معارف اور حکیمانہ اسلوب حضرات صحابہ کرام کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں،یعنی جماعت صحابہ کرام امت اور نبوت کے درمیان قابل اعتماد اور مضبوط واسطہ ہے،جب کہ علمائے امت کا متفقہ اصول ہے کہ صحابہ سارے کے سارے عادل ،امانت دار اور قابل بھروسہ ہیں۔علامہ ابن عبدالبرمالکی رحمہ اﷲ نے ''الاستیعاب ''میں لکھا ہے ''یہ حضرات ِصحابہ رضی اﷲ عنہم ہر زمانے کے لوگوں سے افضل ہیں اور خیر ِ امت ہیں، جنھیں لوگوں کی بھلائی کے لیے ظاہر کیا گیا اور ان سبھی کی عدالت اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان کی تعریف و توصیف سے ثابت ہے اور ان سے بڑھ کر کون عادل ہو سکتا ہے؟ جنھیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت و نصرت کے لیے پسند کر لیا ہو اور کسی کے حق میں عدالت و ثقاہت کی شہادت اس اﷲ و رسول کی شہادت و گواہی سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔''

بلاشبہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین امت کا سب سے افضل و اعلیٰ طبقہ ہے،زبان رسالت ﷺسے ان کے زمانہ کو خیرالقرون '' ارشاد فرمایا گیا،ان کے عادل،صادق،صالح،ایمان دار،ہدایت یافتہ اور کامیاب ہونے کی بشارت وحی الہیٰ کے ذریعے دی گئی،انہوں نے پیغامِ اسلام کو معلوم دنیا تک پہنچا کراﷲ کے نبی ﷺ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرکے دنیا میں امن قائم کیااور انسانوں کی پیشوائی اور قیادت وراہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اورموجودہ دور میں بھی امن کا قیام،حسن معاشرت ،بھائی چارہ ورواداری صرف تعلیمات ِنبوی اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر ہی ممکن ہو سکے گا۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275771 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More