آج صبح میں سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا آرہا تھا کہ میری نظر
سائیڈ پر کھڑی ایک گاڑی پر پڑی تو میرے قدم رک گئے
منظر کچھ یوں تھا کہ ایک خوبرو نوجوان ، کلین شیو ، پئنٹ شرٹ پہنے ، مہران
گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا ، ڈرائیور والا دروازہ تھوڑا ساکھلا تھا
، دیکھنے میں ہی لڑکا تعلیم یافتہ لگ رہا تھا۔
میں وہاں حیران کھڑا اس کا عمل دیکھ رہا تھا :
وہ اپنے والٹ اور گاڑی کے ڈیش بورڈ سے کاغذ نکالتا ، جو دیکھنے میں بینک کی
رسیدیں اور لیٹرز لگ رہے تھے ، ان کو پڑھتا اور جو فضول سمجھتا اس کو پھاڑ
کر گاڑی کے کھلے شیشے یا دروازے سے نیچے گرا دیتا ، میں اپنے موبائل کے
کیمرے سے اس کی وڈیو بنانے لگا ، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سڑک پر بہت سارے
کاغذوں کے ٹکڑے بکھیر دئیے تھے۔
اچانک جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ، اگلے
ہی مرحلےاس کی تیکھی نظر ان کاغذ کےپرزوں کی طرف بھی گھومی جیسے وہ مجھ سے
چوری دیکھ رہا ہو ، اس کے چہرے پر غصے اور شرمندگی کے آثار نظر آرہے تھے
جیسے کہہ رہا ہو کہ تم کون ہوتے ہو میری تصویر بنانے والے۔
میں اس کے دل کی حالت کو بھانپ گیا تھا اس کے بولنے یا اپنی جگہہ سے ہلنے
سے بھی پہلے ، اپنے موبائل کو بند کیا اور جا کر اس کی گاڑی کے پاس بیٹھ کر
ان کاغذ کے ٹکڑوں کو چننے لگا ، ساتھ ہی اس کو دیکھتے ہوئے مخاطب کیا۔
ناراض نہ ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میری بھی تصویر یا وڈیو بنا سکتے ہیں
وہ خاموش اپنی سیٹ پر بیٹھا میری طرف دیکھے جا رہا تھا ، جب میں نے سب کاغذ
کے ٹکڑے سمیٹ لئے اور میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو اب غصے کی بجائے
شرمندگی کے ساتھ اس کی نظروں سے ایک التجا جھلک رہی تھی۔
کہ میری بھی عزت نفس ہے ، لگ رہا تھا کہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے
اور اس کی خواہش ہے کہ کاش میری یہ وڈیو نہ بنی ہوتی۔
میں نے کیمرا نکالا اور اس کے سامنے اس کی وڈیو کوڈ ٖیلیٹ کر کے کاغذ کے
ٹکڑے تھامے چل دیا ۔
یہ بات ٹھیک ہے
Pictures speak louder than words.
میں جانتا ہوں کہ تصویر سے آپ ایک لمحے میں پوری کہانی سمجھ جاتے ، آپکا
اور میرا وقت بھی بچتا اور پیغام میں دلچسپی اور کشش بھی زیادہ ہوتی ، مگر
یہ سب چیزیں انسان کی خوشی اور عزت نفس سے زیادہ اہم کبھی نہیں ہوسکتیں ،
وڈیو ڈیلیٹ کرنے کے بعد شرمندگی میں ڈوبی خوشی اور تشکر کا اظہار سے ملنے
والی ہم دونوں کے دل کی تسکین یقیناً ہر شے سے زیادہ قیمتی تھی جس کو صرف
میرا ، اسکا یا کسی دیکھنے والے کا دل ہی سمجھ سکتا ہے۔ دوسرا وہ بھی میری
طرح کا انسان ہی تھا اور اس بھی عزت مجروح ہوتی
صفائی نصف ایمان ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں کہ ہم اپنی گاڑی یا
گھر سے کچرا نکال کر گلی یا سڑک پر پھینک دیں۔ ہم روزانہ یہ ماجرے دیکھتے
ہیں۔ سڑکوں کے کنارے کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ
گاڑی کو آہستہ کرکے اپنے گھر کا کچرے کا بھرا ہوا بیگ سڑک کے کنارے ڈمپ کر
دیتے ہیں۔
ہمارا تویہ معمول بن چکا ہے اور شائد اتنا محسوس نہیں ہوتا مگر اچھے ماحول
میں رہنے والے ایسی حرکتوں کو اس معاشرے کے رہن سہن اور تہذیب وتمدن کا
عکاس سمجھتے ہیں۔
ہر معاشرے میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور وہ اپنی اچھائی کے موتی بھی
بکھیرتے رہتے ہیں اور ان کی قدر وقیمت کو سمجھنے والے کچرے کے ڈھیر سے بھی
سمیٹ لیتے ہیں اور موتیوں کی قیمت کو نہ سمجھنے والے اپنی محرومی کو کم
علمی یا لاپرواہی کی نظر کئے رکھتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صورت حال ہمارے یہاں
بنی گالہ میں بھی ہے۔
آسٹریلیا سے پلٹ ایک نوجوان نے جب بنی گالہ سے نکلتی سڑک کے کنارے کچرا
دیکھا تو اپنی جیب سے پیسے دی کر مزدوروں سے کچرا اٹھوایا اور اس کے تعمیری
کام کو دیکھ کر اور لوگوں نے بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کار خیر میں
حصہ لیا۔ مگر دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو تعلیم یافتہ اور امیر ہونے کے
باوجود ابھی بھی کچرا پھینکتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتے یا ان کی تربیت
کا اثر ہے کہ آنکھ بچا کر کچرے کے بیگ گرا جاتے ہیں۔ شائد سوچتے ہوں کہ
نیکی کا کام کرنے والوں کو اور موقع دیا جائے۔
اسی طرح میرے ایک ہمسائے نے واقعہ سنایا کہ اس نے اپنی جیب سے خرچہ کرکے
بنی گالہ کے داخلی ایریا پر دوسو دورخت لگوائے ، جب کام شروع ہی ہوا تھا تو
سی ڈی اے والے آگئے کہ کس کی اجازت سے درخت لگوائے جا رہے ہیں ، اس نے
اپنے اثر و رسوخ استعمال کرکے اجازت لی اور درخت لگوادئیے اور آج ان میں
سے ایک بھی باقی نہیں ، سب کی صفائی ہوگئی ہے۔ ہم اس طرح کی صفائیاں کرتے
کرواتے ہیں۔
بات ساری سوچ کی اور تربیت کی ہے ، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم میں
کردار سازی کا فقدان ہے یا پھر ہماری تربیت اور کردار سازی کا معیار کچھ
بدل گیا ہے ، جو بھی ہے اچھا شگوں نہیں ہے۔ ہم بھلے اپنے مذہب ، عبادات اور
تعلیمی اسناد کو سنبھالے رکھیں مگر دوسرے انسانوں کو ان کا کوئی فائدہ نہیں
جبتک ہم اپنے اعمال اور معاملات کو ٹھیک نہیں کریں گے۔
صفائی صرف بدن کپڑوں اور ارد گرد کے ماحول کی ہی نہیں بلکہ نیت اور ارادوں
کی بھی ضروری ہے۔ نیت کی صفائی یہ ہے کہ ہم بغض ، حسد ، نفرت اور غیبت کو
اپنی سوچ اور عمل سے نکال دیں۔ اور ایک صحت مند معاشروں کی تعمیر میں نیت
کی صفائی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
|