پانی اور بد عنوانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانی زندگی کی روانی کا ہی نہیں بلکہ زندگانی کا باعث ہے۔چمکتی دمکتی سڑکیں بھی اس وقت اچھی لگتی ہیں جب پیاس نہ ہو،پیٹ میں بھوک ہو اور گلا پیاس سے خشک ہو رہا ہو تو کہاں کچھ اچھا لگتا ہے،اس وقت تو محبوب ترین ہستی بھی نہیں بلکہ دنیا کی محبوب ترین شے بھی من کو نہیں بھاتی،جی اس قدر اہمیت ر کھنے والا پانی ارزانی سے گرانی ، آسانی سے کمیابی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہمارے سیاست دان بس یہی سو چ رہے ہیں کہ اپنے حریفوں کو شکست کیسے دی جائے،د شمنوں کا منہ کیسے تو ڑا جائے،پرانے زمانے میں بادشاہ دشمنوں سے بچنے کے لیے قلعے اور فصیلیں تعمیر کیا کرتے تھے ،آج محل تعمیر کیے جاتے ہیں اور عیش وآرام کی زندگی گزارنے او ر کسی خطرے کی صورت میں باہر نکلنے کے لئے ملک سے باہر شاندار گھر بنائے جائے جاتے ہیں، عوام بھگتیں،حکمران یہ جا،وہ جا، کہاں کا پانی،کیسی گرانی،پھر پانی کا مسئلہ بھی تو عوام کا مسئلہ ہے،اسی لئے تووہ گندا پانی پی رہے ہیں،حکمران خاص الخاص ہیں، ان کا پانی بھی خاص،ہمارے ملک کی اکثریت عوام پر مشتمل ہے جو کہ صاف پانی سے محروم ہے،ملک کی سب جماعتوں کو ہمیشہ برسر اقتدار آنے کی فکر رہتی ہے، اس کی حریف جماعتوں کو اسے ہرانے کی،یہ تو ایک گورکھ دھندا اور تجربہ کاری کی گیم ہے،عوام کی فکر کسی کو نہیں،عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کو کوئی تیار نہیں،اگر کوئی اس کا دعوی کرتا ہے تو اس پر اعتبار کرنے کو عوام تیار نہیں۔
اس وقت سب سے بڑی جنگ جو ہمیں در پیش ہے ،وہ ہے پانی کی بقا،جس سے ہماری بقا وابستہ ہے،مستقبل میں اگرچہ پانی کے مسئلے پر جنگیں لڑنے کی پیشن گوئی کی جا چکی ہیں،مگر ہم چا ہیں تو اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پا سکتے ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی فتح ہوگی،ورنہ پانی پٹرول سے بھی مہنگا ہوگا،افسوس کہ پانی پر ہماری کوئی قومی پالیسی نہیں،سائبر کرائم کی پالیسی بنانے والے اگر پانی پر پا لیسی بنا لیتے تو شائد یہی نیکی کام آ تی اور سائبر کرائم بل بنانے کی ضرورت پیش نہ آ تی۔

پانی کے امور پر کام کرنے والی تنظیم حصا رکے مطابق کراچی، لاہور،اور ملک کے بیشتر حصوں میں صاف پانی کمیاب ہے،اس سلسلے میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ر یسورسز نے ملک کے ۳۲ شہروں سے نمونے اکٹھے کیے ،ان میں بیماری کے مضر صحت جرا ثیم پائے گئے،حتی کہ فراہمی آ ب کی سکیموں کا معا ئنہ کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آ ئی کہ یہ نان فنکشنل سکیمیں ہیں، ۲۰ فیصد میں تو واٹر ٹریٹ منٹ پلا نٹ ہی نہیں اور ۷۲ فیصد سکیموں کے ذریعے میسر پانی آ لودہ ہے،پینے کے پانی اور سیوریج پا ئپ لائن کا اشتراک آ لودگی سے بھر پور پانی کا تحفہ عوام کو پیش کر رہا ہے، زنگ آ لودہ پائپ مزید آ لودگی کا باعث ہیں، مصر میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ۱۰۰۰ دن ،ا ورمریکہ میں ۹۰۰،آ سٹریلیا میں ۶۰۰،جنوبی افریقہ میں ۵۰۰،بھارت میں ۱۷۰ اور پاکستان میں صرف ۳۰ دن ہے،ہم سب ہیں کہ گلا پھاڑ کر کبھی کسی کے لئے چلا رہے ہیں اور کبھی دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں،دونوں محاذوں پر آواز بلند کرنے کے لیے گلے کا تر ہونا ضروری ہے،ضرورت عملی سرگرمی کی ہے، ۲۰۱۰ تک مکمل کی جانے والی فراہمی آ ب کی ۳۲۰۰ سکیموں کو بدعنوانی نے مشکوک بنا دیا ہے،سچ یہی ہے کہ ہمارے مسائل اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتے اور سیدھی پٹری پر چڑھ نہیں سکتے جب تک بد عنوانی ختم نہیں ھو گی۔

پانی کے مسئلے پر واسا سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر سے گزشتہ دنوں رازداری رکھنے کے اصول پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے پانی میں کلو رین ملانے کے لئے جو گرانٹ دی جاتی ہے،وہ بد عنوان عناصر مل بانٹ کر کھا جاتے ہیں اور رپورٹوں میں یہی شو کیا جاتا ہے کہ کلورین ملا دی گئی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا،اگر متعلقہ ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں سے پوچھا جائے تو اول تو وہ کلورین ملانے کا اعتراف کرتے ہیں،پھر بھی جھوٹ پکڑا جائے تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو کلورین دی ہی نہیں جاتی تو ہم کیسے ملائیں،گویا فراہمی آب کی سکیموں کے نقائص تو اپنی جگہ ہیں مگر عوام کی بیماری کو بڑھانے والے عناصر بھی کچھ کم نہیں کر رہے،پانی کے نام پر عوام کو زہر پلا رہے ہیں۔

فلٹر ٹریٹ منٹ پلانٹ بھی اتنا سستا نہیں کہ عام آدمی اسے افورڈ کر سکے ،کیا ایک غریب طبقہ یا متوسط طبقہ اپنے اخراجات نکال کر یہ عیا شی یا ضرورت پوری کر سکتا ہے،واسا کو دی جانے والی لاکھوں کی گرانٹ کھانے والے عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں،ٹیوب ویل آ پریٹر ز کا کہنا ہے کہ ہمیں کلورین نہیں ملتی،حالانکہ یہ ٹیوب ویل آ پریٹر کلورین ملانے کے پابند ہیں،کوئی چیک کرنے نہیں آتا اور اگر کوئی چیک کرنے آجائے تو نہ ملنے کا ایک موثر بہانہ ان کے پاس ہے،جراثیم مرتے نہیں اور عوام مر رہی ہے۔

ٹیوب ویل سسٹم سے قبل ٹینکی سسٹم تھا جس میں بلیچنگ پاؤڈر اور کلورینیشن کا اپنا ایک نظام تھا،علاوہ ازیں لائیٹ چلی بھی جاتی تھی توپانی آتا رہتا تھا،اب ٹیوب ویل سسٹم ہے جو بند ہوتے ہیں تو ساتھ ہی پانی بھی آنا بند ھو جاتا ہے،پانی کی سطح تیزی سے نیچے گر رہی ہے،بڑے بڑے پکے گھروں،سڑکو ں اور شا ہراؤں نے پانی جذب کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے تو مصنوعی طریقے سے پانی اکٹھا کرنے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جا رہی،بارش کا پانی ڈیموں،نہروں،گراؤ نڈز سسٹم میں جمع کریں،اطلاعات کے مطابق اس کے لئے پراجیکٹ بھی منظور کیا گیا،اور اس امر پر بھی غور کیا گیا کہ پانی کی سطح تیزی سے نیچے گر رہی ہے،لہذا پانی ذخیرہ کرنے کے لئے مصنوعی سسٹم بنایا جائے گا،لیکن کیا ہوا،کچھ بھی نہیں ،یہ منصوبہ بھی ان کا غذوں میں دب گیا جن کی قسمت میں ابھرنا نہیں لکھا،نہ ان پر اجیکٹ پر کام ہوا اور نہ ان کے حوالے سے کسی نے دوبارہ سوچنے کی زحمت گوارا کی،یہ سب بدعنوانی کی کرامات ہیں۔اسی لئے تو بدعنوانی کا ختم ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے،ہمارے تمام مسائل اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

بدعنوانی کی وجہ سے ہمارے بہت سے نوجوان تاریک راہوں کے مسافر بن چکے ہیں،مستزاد یہ کہ اس بدعنوانی نے سب کی صحت کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے،کم از کم بدعنوانی کے محاذ پر سب اکٹھے ہو جائیں تو راوی چین ہی چین مانگتا ہے مگر یہ بھی تو ممکن نہیں اور اگر یہ ممکن ہو جائے تو پھر سب ممکن ہے۔
 

Saba Mumtaz
About the Author: Saba Mumtaz Read More Articles by Saba Mumtaz: 4 Articles with 3062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.