آج ہم زندگی فطری طرز کی بجائے
غیر فطری انداز میں گزار رہے ہیں۔کہیں احساس محرومی کے بدلے معاشرہ کو
احساس محرومی کا شکار کر رہے ہیں تو کبھی انجانے خوف اعصاب پہ مسلط
ہیں۔اپنی بربادی یا بدنامی کے خوف سے دوسروں کی زندگیوں میں رواں دریا کے
آگے بند باندھ رہے ہیں۔ آخر کب تک پانی کا بہاﺅ روک پائیں گے؟ہماری زندگیاں
کچھ ایسے ہی بیت رہی ہے، ہر لمحے ہمیں آتش فشاں پھٹنے کا خطرہ لاحق ہے۔ میں
نہیں سمجھ سکا، لوگوں نے خوفِ خدا میں سے خدا کو نکال دیا اور پھر اتنے
خوفزدہ کیوں ہیں؟عجب بات ہے ہم سب مانتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے نیاز ہے۔
انسان جب اپنے ربّ سے سچی توبہ کرتا ہے تو وُہ گناہ دوبارہ سرزد نہیں
ہوسکتا۔ گناہ کی فوری سزا خوف میں جکڑے جانا ہے۔ ہم روزانہ توبہ کرتے ہیں،
روٹین کی توبہ! ہم اِس دُنیا کو مکافاتِ عمل مانتے ہیں مگر انجام کے متعلق
انجان بنتے ہیں۔ شائید ہم زندگی کو زندگی کی طرز کی بجائے اپنے اندازِ اصول
سے گزارنا چاہتے ہیں۔
ہم نہ جانے روزانہ کتنوں سے زیادتی کرتے ہیں۔ لوگوں کی ہائے لیتے ہیں۔ ہمیں
ہمیشہ دوسروں کی بیشمار زیادتیاں تو نظرآتی ہے۔ کبھی یہ سوچا، ہم لوگوں سے
کتنی زیادتیاں کرتے ہیں؟ کیا کبھی اپنی انجان زیادتیوں کا بھی کفارہ ادا
کیا؟
حق تلفی کا علاج نہ دوا میں ہے ، نہ ہی دُعا میں۔ شائید تو بہ بھی کام نہ
آئے، اگر کچھ ہے تو معافی میں، حقوق العباد میں۔ اگر مظلوم راہی عدم کا
شکار ہوا۔ پھر کفارہ ہی کچھ کام آوے۔ یہ کیوں ہے، آج ہماری دولتیں (مال و
اولاد) لُٹتی ہیں، عزت کی عمارات گر پڑتی ہے۔ کہیں یہ اللہ کی جانب سے
آزمائش ہے تو کہیں ہمارے انجان خوف کا ٹوٹتا بند۔ ہم اپنے رزق اور عمل میں
حلال و حرام کی فلسفیانہ بحث الجھاتے ہیں۔افسوس! ان میں اصل تمیز اور پہچان
بھول رہے ہیں۔ حرام نوالہ اور حرام خیال بھی نامعلوم خوف لاحق کرتا ہے۔
انجان بیماری!!۔
کبھی کبھی یہ انجانے خوف ہم خود پر زبردستی طاری کرتے ہیں۔ اللہ کے جلال پر
تحریر و تقریر کرنے والے اللہ کا جمال نہیں بتاتے۔ سامعین و قارئین زبردست
خوف میں مبتلا ، کوئی دُعا پڑھنا بھول گئے تو گنا ہ کا خوف، تلفظ میں
معمولی سی غلطی انجانے میں ہوئی مگر گناہ کا خوف، زندگی کے اوراد ِ وظائف
میں مصروف انسان اپنے اُوپر خوف اس قدرطاری کر لیتا ہے کہ ایسا معصوم انسان
گھر سے باہر قدم نکالنے پر انجانے خوف و گھبراہٹ میںمبتلا ۔
میں جس معاشرہ کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ بے لچک لوگوں کا بے لچک معاشرہ ہے، جہاں
قدامت پرست اور باغی بستے ہیں۔ سیکولر کے نام پہ صرف صوفی نہیں، عیاش بھی
بستے ہیں۔ صوفیا کی قدر ہم بڑی کرتے ہیں مگر اُنکی تعلیم پراب عمل کرتے
نہیں۔ خود کو سیکولر، لبرل کہتے ہیں۔ وُہ بھول جاتے ہیں ، یہ کیاہوتے ہیں؟
دوسروں کی مرضی چھوڑنا، اپنی مرضی مار دینا اور حق فیصلہ کرنا لفظ سیکولر
اور لبرل کی بنیادی اینٹوں میں سے ایک ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اِس پابند
زندگی کا ہے۔
معاشرہ اور مذہب دونوں بدلتے حالات کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔ ایک آٹو میٹک ایڈجسٹ مینٹ سسٹم! مگر کیا ہوا؟ ہم نے مذہب کی ساری
سختیاں اپنی زندگی میں داخل کی۔ اُن پابندیوں کا بیلنس کرنے کے لیے مذہب
کچھ نرمیاں بھی دیتا ہے ، وہاں ثقافت کی روایات عائد کر دی۔ ثقافت کی لچک
مذہب میں گناہ کے تصور سے ہٹا دی گئی۔ مذہب کی نرمی صدیوں کی روایات کے نام
پر قیدی بنا لی گئی۔ باقی کیا بچا؟ نرمیاں کٹ گئیں، سختیاں بچ گئیں۔مذہب و
ثقافت کی لچک تصورمیں رہ گئی۔اپنے ہی نظام سے بے چینی اُبھرنے لگی۔لوگ
پابندیوں میں بے راہی زندگی کے مسافر بن رہے ہیں۔
ہم لفظ ”محبت“ سے واقف ہی نہیں۔ رشتوں پرا سٹیٹس کی پابندی لگا رکھی ہے تو
کہیں گھٹیا سوچ والی سیاست نے ہمیں اُچاٹ کر رکھا ہے۔ خدا نے عیب جوئی سے
منع فرمایا ہے۔ ہمیں چسکا دار برائیاں و گپیں لگانے کا شوق ملا ہے۔ہمارے یہ
تربیتی رویے اُولاد کے انجانے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔
ہم تبصرہ کرنے والی قوم بن چکے ہیں۔ تبصرہ کرنا، اَن پڑھ رویہ تھا۔ اب یہ
تعلیم یافتہ طبقہ میں رواج پڑ چکا ہے۔ صبر کرنا تو دور کی بات، ہم تو بات
سننا بھی مشکل سمجھتے ہیں۔ جیسے بولنا ایک خوراک ہے ایسے ہی سننا بھی ایک
خوراک ہے۔ سن کر اعصاب قائم رہتے ہیں اور بول کر ذہن کو تسکین ملتی ہے۔ جب
آپکی بات پہ توجہ دینے والا کوئی نہ رہے گا۔ انجانہ خوف کو آپ خود اپنا
ساتھی بنائے گے۔
کچھ لوگوں کو اپنی اُولاد کا انجانہ خوف ہے۔تربیت، تعلیم، رزق کے خلل کا
خوف نہیں۔ والدین کو سنبھالنے کا انجانہ خوف۔شائید اپنے کسی انجان عمل کا
خوف!
یہ زندگی سڑک کے ایک حادثہ کی مانند ہے۔ جہاں آپ حادثہ سے تو بچ رہے ہیں
مگر اَن ٹرینڈ ڈرائیور نے آپکو حادثہ سے دوچار کیا۔ زندگی میں رشتے اعتبار
سے جنم لیتے ہیں اور اعتبار کو شک کھا جاتا ہے۔ آج گھریلو زندگی شک سے
انجانے خوف پیدا کر رہی ہے۔ کہیں ہمارا مستقبل بھی بہادر شاہ ظفر جیسے
مظلوم و بے اختیار شہنشاہ ِہند والا نہ ہو۔ جو خفیہ طور پر جنگ آزادی کی
تیاریوں میں تو مصروف تھا مگراُس کے اپنے دِل کے سواءکسی نے اُس سے وفا نہ
کی۔ملکہ زینت محل نے ولی عہد شہزادہ فخرو کو زہر سے مارڈالا، حکیم احسن
اللہ خان نے شاہِ دلی کو مقبرہِ ہمایوں سے گرفتار کروایا۔ خوش نصیب تھا
بادشاہ ابوظفر انجانے خوف کا طوق جس نے اُتار پھینکا۔ وفا سب سے نبھائی،
دھرتی کو لیلٰی جان کر اپنا مقام خود لکھا۔
میں برسوں سے انجانے خوف کی جڑ کی تلاش کر رہا ہوں۔ ہم نے زندگی کو جب
زندگی کی روش سے چھینا تو انجانہ خوف ہم میں وارد ہوا۔ کبھی ہم شکار ہوئے
تو کبھی کوئی ہمارا شکار بنا۔
تاﺅ تے چنگ میں پانی سے متعلق کچھ یو ں درج ہے: پانی دُنیا کی نرم ترین شے
ہے جو ہاتھ میں بھی قابونہ آئے اور جب اِسکو روکا جائے تو یہ دُنیا کی سخت
ترین شے ہے کہ یہ ہر رکاوٹ کو توڑ کر بہاءلیجا تا ہے۔ ایسے ہی انسانی
خواہشات آپ کے اندر جنم لیتی ہے مگر یہ ختم کبھی نہیں ہوتی۔ اِنکی تکمیل
میں آپ کی ذات ختم ہوجاتی ہے۔ مگر یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
ہمارے بیشتر خوف خواہشات کے حصول میں جنم لیتے ہیں۔ ہمارا اکثر ذہنی امراض
انجانہ خوف میں جانے گئے، جو بے عمل رویہ میں ہوتا ہے۔
اگر انجانہ خوف آپکے گھٹیا رویوں سے جنم لیتا ہے تو کہیں لوگوں کے گھٹیا
رویے آپکو اس میں مبتلا رکھے گے |