کیا پاکستان ایک کمزور ملک ہے
اگر کہا جائے ہاں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایٹمی قوت کمزور ہو اور اگر کہا
جائے نہیں تو پھر کیوں ہم حملہ آور قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔کیا یہ
ہماری کم ہمتی ہے یا مجبوری۔ ایک طرف تو ہم خود کو بڑے فخر سے ایٹمی قوت کے
طور پر متعارف کراتے ہیں اور امریکہ کی غلامی سے آزاد قراردیتے ہیں لیکن
ہوتا یہ ہے کہ بس کبھی کبھار میزائیل حملوں پر احتجاجی بیان جاری کر دیتے
ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے دفاع کا عظیم فریضہ ادا کر دیا ہے۔ مجھے
اس بات کا اعتراف ہے کہ آج کے دور میں صرف جذبہ ہی نہیں جدید ٹیکنالوجی بھی
انتہائی ضروری ہے لیکن اگر ٹیکنالوجی ہو اور اسے چلانے والے ہاتھ کانپتے
ہوں تو کیا نشانہ درست لگے گا۔ہم نے ہر حال میں حالات اور حملوں کا مقابلہ
کرنا ہے اور اپنی آزادی برقرار رکھنی ہے۔ ہمارے عوام اس کے لیے تیار ہیں
اور ہماری فوج اور دوسرے حساس ادارے تو ہر وقت مستعد اور قوم کی توقعات پر
پورا اترنے کے لیے ہمہ وقت سینہ تان کر کھڑے ہیں اور عسکری قیادت بھی پر
عزم ہے لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی قیادت کو بھی معاملہ فہمی کا
ثبوت دینا ہوگا اور ہر صورت میں قوم کا مورال بلند رکھنا ہوگا اور ایسے
بیانات دینے سے گریز کرنا ہوگا جو قوم کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہوں۔یہ
بالکل درست ہے کہ ہمارے پاس امریکہ جیسے جدید ہتھیار نہیں ہیں لیکن اس بات
سے بھی انکار نہیں کہ امریکی فوجیوں اور عوام کے پاس وہ حوصلہ نہیں جو
ہمارے پاس ہے۔اس بات کا یقین رکھنا چاہئیے کہ بندوق سے اہم وہ مضبوط ہاتھ
ہیں جو اسے چلاتے ہیں یہ بھی بات ذہن میں رہے کہ قومیں اپنی تقدیر خود
بناتی ہیں اور ان کی رہنمائی ان کے لیڈر کرتے ہیں۔اگر لیڈر اہم نہ ہوتے تو
کیا برصغیر پاک وہند کے بکھرے ہوئے مسلمان خود ہی آزادی حاصل کر لیتے اور
انہیں قائد اعظم کی رہنمائی کی ضرورت ہی نہ تھی مگر یہ اُس لیڈر کی عظمت
تھی اور اُس کی رہنمائی کی برکت تھی کہ بکھرے ہوئے دانے ایک لڑی میں پروئے
گئے اور ایک تسبیح وجود میں آئی لیکن آج نہ ہی وہ عزم ہے نہ ہی وہ رویے کہ
قوم کو بحیثیت قوم خود پر فخر کروایا جائے جبکہ اس قوم کو یہ احساس دلانا
مشکل بھی نہیں کیونکہ یہ پر عزم لوگوں کا ملک ہے جو اپنی تاریخ اور روایات
کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ یہ بے حوصلہ بھی
نہیں۔اس ملک کے پاس حوصلہ اور ہمت بھی ہے اور اپنی حفاظت کا کچھ ہی سہی
سامان بھی ہے اور خدا کا شکر ہے ایک بہترین تربیت یافتہ اور پر عزم فوج بھی
اس کو بے وقار کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔آرمی چیف نے اپنے رویے اور
اپنے فیصلوں سے خود کو ایک بہترین محب وطن اور بہادر سپاہی کے طور پر
منوایا ہے۔اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ قوم کو پاک فوج پر مکمل اعتماد اور
بھروسہ ہے تو حقیقت یہی ہے اور اب تو خدا کا شکر ہے قوم کا فوج پر اعتماد
بحال ہو رہا ہے اور ماضی کی تلخ خلیج اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے جو صرف ایک
شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو
قوم کے حوصلے پست کرنے کی بجائے انہیں بلند کرنے کی ضرورت ہے جس میںسب سے
بڑا کردار ہمارے قائدین اور پھر میڈیا کا ہے کیونکہ یہ عام لوگوں پر اپنا
سب سے زیادہ تاثر چھوڑتے ہیں۔اور اگر یہ قائدین حکومت کا حصہ ہوں تب تو اُن
کی بات کو سند کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔اﷲ نہ کرے کہ اس قوم کو آزمائش میں
ڈالا جائے لیکن اگر ایسا ہوا تو باوجود اس کے کہ ہمارے پاس تیس ہزار کی
بلندی پر اڑنے والے ڈرون نہیں ہیں لیکن حوصلہ اور ہمت بے تحاشہ ہے۔ ہمارے
جذبہ ایمانی کا کوئی اندازہ نہیں جسے کئی بار آزمایا بھی گیا اور ہمیشہ اس
کے نتائج نے پاکستان کے خوددار عوام کی عزت کو ساری دنیا میں بلند ہی کیا
ہے۔اور اب بھی خدانخواستہ وقت پڑنے پر ہم اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتے
ہیں لیکن حکومتی سطح پر بھی اسی حوصلے کی ضرورت ہے اور احساس کمتری سے نکل
کر اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنے سے ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کا مقابلہ بھی
بخوبی کر سکتے ہیں اس لیے عوام کو بے حوصلہ کرنے کی بجائے ہمارے حکمران
اپنا حوصلہ بھی قائم رکھیں اور عوام کا یقین بھی متزلزل نہ کریں۔ |