کیا تبدیلی یہاں بھی آئے گی !
اہل کمال ہمیشہ آشفتہ حال رہے ہیں کوئی حکومت آے یا جاۓ ان کی حالت سدھارنے
میں غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے "شاکر شجاع آبادی "جیسا سرائیکی کا بڑا شاعر
ہو یا "نثار ناسک "جیسا نغمہ نگار یا پھر "روبینہ پروین "جیسی شاعرہ جو کہ
لاہور چو برجی کے قریب ایک جھگی میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہے ۔ ہر وہ
انسان جو فنون لطیفہ سے وابستہ ہے فنکار ہے لیکن اس دوغلے معاشرے کے معیار
کچھ اور ہیں یہاں اہل علم کی کوئی قدر نہیں ۔ لفظوں کے موتی چننے والے، گیت
بننے والے ،نغمے لکھنے والے ،غزلیں کہنے والے کتنی تعداد میں پاکستان میں
موجود ہیں پھر شاعرات اور خواتین کی تعداد تو مزید کم ہے ۔ ان میں سے زیادہ
تر معاشی مسائل کا شکار ہیں لیکن کیا کئجیے صاحب اقتدار کی تر جیحیات کچھ
اور ہیں ۔ عمران خان صاحب کتاب دوست انسان ہیں تبدیلی کے دعوے دار ہیں ان
کے اقتدار میں امید کی جاتی ہے کہ تبدیلی ادب کے میدان میں بھی واقع ہو گی
۔لکھاری معاشرے کو بہت کچھ دیتا ہے لیکن یہ معاشرہ لکھاری کو کیا دیتا ہے !
اسلام آباد کے شاعروں کے لیے اکادمی ادبیات پاکستان بھٹو صاحب نے قائم کی
تھی ۔
راولپنڈی میں اس نوع کے ادارے کی ضرورت ہے ۔ راولپنڈی کے شاعروں ادیبوں نے
اپنی ذاتی کوششوں سے ۱۳۵کشمیر روڈ پہ واقع لیاقت علی خان کی حویلی میں حرف
کدہ کے نام سے دسمبر ۲۰۱۶میں ایک ادبی ادارہ قائم کیا ۔ بوسیدہ عمارت کی
ذاتی جیب سے مرمت تزئین و آرائش کی گئی اور اسے استعمال کے قابل بنایا گیا
۔ جن میں شہر سخن کے راجا نوجوان شاعر احمد رضا راجا مشہور نقاد اور شاعر
جلیل عالی صاحب ۔ کہوٹہ سے پروفیسر حبیب گوہر ، جاوید احمد نیز راول پنڈی
کے شعرا نے بڑھ چڑ ھ کے حصہ لیا ۔ پہلے نعتیہ مشاعرے کا انعقاد دسمبر
۲۰۱۶میں کیا گیا جس کی صدارت افتخار عارف صاحب نے کی ۔ یہ ادارہ مسلسل
مشاعروں کا انعقاد کرتا رہاپورے ملک سے شاعروں ادیبوں دانشوروں کی شمولیت
باعث افتخار رہی ۔ کشمیر ڈے پہ یکجہتی کشمیر مشاعرہ منعقد کیا گیا اور ادب
کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ شاعروں ادیبوں کے لیے یہ جگہ ٹی ہاوس
کا کام دے رہی تھی کہ اسے بند کردیا گیا اور عمارت پہ قبضہ کر لیا گیا ۔
شیخ فضل فیملی نے انجم نامی شخص کو اس عمارت میں بٹھا رکھا ہے ۔ صاحب
اقتدار اور متعلقہ اداروں سے سب ادیبوں اور شاعروں کی پر زور اپیل ہے کہ
ادب کی ترویج کے لیے حرف کدہ کو بحال کیا جاۓ اور اس پر سے قبضہ ختم کروایا
جاۓ ۔ یہ مطالبہ پورے ادبی حلقے کا ہے ۔ رائٹرز موومنٹ پاکستان جو کہ ملک
سمیت دنیا بھر میں موجود سنجیدہ اور اہم ادبی شخصیات اور ادبی تنظیموں کا
متحدہ محاذ ہے ، اس سلسلہ میں سراپا احتجاج ہے اور حکومت سے باضابطہ طور پر
رابطہ کر لیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پنجاب کے وزیر ۔ ثقافت فیاض الحسن چوہان
سے رائٹرز موومنٹ کے معاملات چل رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ
میں حکومتی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور راولپنڈی کو ایک ادبی مرکز مل سکے۔۔۔ |