تحریر:ثوبیہ اجمل
نوجوانی کا دور قوت ،صلاحیت، حوصلوں اور امنگوں سے پھرپور ہوتا ہے۔ نوجوانی
ہی وہ دور ہے جب انسان کے اندر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہوتا ہے۔یوں تو انسان
کی تمام زندگی ہی قیمتی ہے مگر بلاشبہ جوانی انسان کی زندگی کا قیمتی ترین
دور ہوتا ہے۔ اس لیے جوانی میں انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔
جن میں سے کچھ کا تعلق اس کی ذات ، اس کے خاندان اور کچھ کا تعلق معاشرے سے
ہوتا ہے۔
جوانی میں انسان بہت جوش میں رہتا ہے، اسے غصہ بھی بہت جلدی آجاتا ہے۔ بس
ہر وقت اپنی من مانی کرنے کو جی چاہتا ہے اور اس کے اس رویے کا سب سے زیادہ
شکار اس کے والدین ہوتے ہیں۔ وہ خود کو عقل کل سمجھنے لگتاہے اور یہ بات سب
سے خطرناک ہے۔ انسان بے شک کتنا ہی بڑا ہو جائے مگر اپنے والدین کی بات کو
اہمیت دینی چاہیے۔ کیوں کہ ایسانہ کر کہ وہ والدین کا بھی دل دکھاتا ہے اور
اﷲ تعالی کی ناراضی بھی مول لیتا ہے۔ا نسان کا سب سے بڑا حق خود پر ہے۔
جوانی کے دور میں اکثر لوگ اپنا وقت ضایع کرتے ہیں اپنی تعلیم پر توجہ نہیں
دیتے اور بعض اوقات غلط صحبت میں پڑ کر برائیوں کے دلدل میں دھنستے چلے
جاتے ہیں اور جب انھیں احساس ہوتا ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
جوانی کے دور میں اپنی عقل کے فتور میں اور لاابالی پن میں اکثر نوجوان دین
سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔بعض اوقات دین سے دوری کے سبب وہ غلط عادات میں
مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کسی کی نصیحت نہ سننے کے باعث اکثر و بیشتر دینی و
دنیاوی نقصانات اٹھاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جوانی میں انسان چوں کی دنیا کی
زیادہ جلدی مائل ہوجاتا ہے اور شیطان جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے اسے
برائیوں کی طرف راغب کرتا ہے اسی لیے جوانی میں کی گئی عبادات اﷲ تعالی کو
بے حد پسند ہیں کیوں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بندہ اپنی خوش دلی سے اﷲ کی
عبادت کرتا ہے۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ انہیں جب کہیں بھی کام کرنے کا موقع ملے تو ایمانداری
اور محنت سے کام کریں۔ اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کی خدمت میں صرف کریں
تاکہ وہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکیں اگر نوجوان نسل اپنی ذمہ
داریاں خلوص نیت سے نبھائیں تو ہمارا ملک ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر
سکتا ہے۔ |