حسینہ ایک عام سی گھروں میں کام کرنے والی عورت ہے۔جس کی
زبان میٹھی سرائیکی بولی بولتی ہے۔پہلے اپنی ایک سال کی بیٹی کو ساتھ لے کر
گھر سے کام کرنے نکلتی تھی۔اب اُس کی وہ بیٹی اُس کے شوہر کی پہلی بیوی کے
ساتھ گھر میں رہتی ہے کیوں کہ حسینہ کی گود میں اب ایک ماہ کا بیٹا بھی
آگیا ہے۔جو بہت مشکلوں سے بڑے آپریشن کے بعد حسینہ کی گود میں آیا۔آپریشن
میں چالیس ہزار کی رقم خرچ ہوئی جو اُسے مجبوری میں سود پر قرضہ کی صورت
میں لینا پڑی۔حسینہ کے خاندان میں چونکہ مردوں کے کام کرنے کا رواج نہیں ہے
لہٰذا حسینہ خود کام کرتی ہے اور اب قرضہ اتارنے کے لئے اپنی صحت کو نظر
انداز کرتے ہوئے مزید گھروں کے کام کرتی ہے۔حسینہ کہتی ہے کے کاش میں عورت
نہ ہوتی تو شاید میری زندگی ایسی نہ ہوتی اور اگر مجھے عورت ہی پیدا ہونا
تھا تو مجھ پر تعلیم کا دروازے بند کیوں کردیے گئے وہ کہتی ہے کہ ہمارے
گھروں میں کسی عورت کی تعلیم کا تصورنہیں ہے۔مرد قران کی تعلیم حاصل کرتے
ہیں اور اکثر اسکول بھی جاتے ہیں لیکن عورتیں ہر تعلیم سے محروم ہیں۔اس کی
کوئی وجہ اسے بھی سمجھ نہیں آتی وہ کہتی ہے کہ بس یہی ہوتا آیا ہے اور یہی
ہوتارہے گا میر ی کسی بہن نے تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی ماں نے اور نہ
ہی میری ماں کی ماں نے۔اور اب میری بیٹی بھی شاید تعلیم حاصل نہ کرسکے کیوں
کے میرے شوہر نے اپنی پہلی بیوی سے ہونے والی بیٹیوں کو بھی تعلیم نہیں
دلوائی۔حسینہ کہتی ہے کہ اس کے شوہر کا یہ ماننا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم
دینے کا مطلب ہے کہ انھیں شیطان کا آلہ کار بنادیا جائے یہ بس کام کے لیے
ہیں یہ گھر کا کام کریں گی اور کل کسی اور کے گھر کا کام کریں گی تاکہ اپنی
زندگی گزار سکیں اور اپنے گھر والوں کو بھی آرام دیں سکیں،حسینہ اپنی زندگی
پر آنسو بہاتی رہتی ہے اسے اپنا گھر چلانے کے لیے محنت کرنے پر کوئی اعتراض
نہیں لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتی تو شاید اس زندگی بھی
مختلف ہوتی اسے شاید اتنی محنت نہ کرنی پڑتی جتنی وہ آج کررہی ہے۔
یہ ایک حسینہ کی کہانی نہیں یہ ہمارے معاشرے میں موجود لاکھوں عورتوں کی
کہانی ہے جو فکرِمعاش کے سلسلہ میں دن رات محنت کرتیں ہیں اور اپنی ہمت سے
زیادہ کام فقط ان کے نا خواندہ ہونے کے سبب انھیں کرنا پڑتا ہے۔
کتنی حیرت انگیز اور شرم ناک بات ہے کہ پاکستان میں آج بھی اس موضوع پر
گفتگو کی جاتی ہے کہ عورت کی تعلیم ضروری ہے۔ حالاں کہ یہ ایک ایسا امر ہے
جس پر کوئی دوسری رائے ہونی ہی نہیں چاہیے۔ ہم ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں
جس نے عورت کو عزت واحترام کے ساتھ وہ حقوق دیے جو اسے پہلے حاصل نہیں تھے۔
اگر ہم اسلام سے پہلے موجود معاشروں اور مذاہب پر نظر دوڑائیں تو وہاں ہمیں
عورت بہت برے حالات کا شکار نظر آتی ہے۔یونان میں تمام تر ترقی اور علم کے
باوجود عورت کا مقام کوئی عزت افزا نہیں تھا۔ یونانی عورت کو ادنیٰ درجے کی
مخلوق سمجھتے تھے۔ سقراط جیسا فلسفی بھی کہتا تھا کہ عورت سے زیادہ فتنہ و
فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوب صورت
معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔
یونانی سماج میں اخلاقی بنیادوں پر عورت کی حیثیت بے بس غلام کی تھی۔
رومی تہذیب میں بھی صنف نازک ظلم اور مصائب کا شکار رہی۔ اس معاشرے میں بھی
عورت کو اس کی حیثیت اور حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ پیدائش سے وفات تک اس
کی حیثیت محض ایک قیدی کی سی رہی، یونانیوں اور ہندوستانیوں کی طرح رومیوں
کے دل بھی عورت کے معاملے میں رحم و مرّوت سے قطعی محروم تھے، سنگدلی اور
شقاوت قلبی کاعالم یہ تھا کہ عورت کو اپنی عصمت و عفت اور ناموس و حیا کے
تحفظ کے لیے کوئی حقوق حاصل نہ تھے، مرد کو اپنی بیوی کے چال چلن کے متعلق
اگر رائی بھر شبہ ہوتا تو وہ اسے قانونی طور پر موت کے گھاٹ اْتار دینے کا
حق رکھتا تھا۔ اس کی موت کے لیے وہ کیا آلہ یا ذریعہ اختیار کرے، اس بارے
میں بھی مرد کو اپنی خواہش پر مکمل اختیار تھا۔
قانون نے عورت کے شخصی استقلال کو تسلیم نہیں کیا تھا، اس کی حیثیت ایک
غلام کی تھی، وہ باپ کی غلامی سے نکل کر خاوند کی غلامی میں آجاتی، اس کے
کوئی حقوق تھے نہ خاوند کے فرائض، باپ کو اختیار تھا کہ وہ بیٹی کی شادی
جہاں چاہے کرے، اور اگر اس کی مرضی نہ ہو تو عین شادی کی رسوم کے وقت اسے
منسوخ کرسکتا تھا۔مولانا ابو الکلام آزاد رومن سلطنت کے زوال میں عورت کی
حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’رومانی مردوں نے اپنی عورتوں پر گوشت
کھانا، ہنسنا بولنا اور بات چیت کرنا بھی حرام قرار دے دیا، یہاں تک کہ ان
کے منہ پر’موزسیر‘ نامی ایک مستحکم قفل لگا دیا، تاکہ وہ کہنے ہی نہ پائے۔‘‘
ایران میں بھی حوا کی بیٹی بدحالی سے دوچار تھی۔ سید امیر علی ڈولنجر کی
کتاب ''The Gentile and the Jew'' کے حوالے سے زمانہ نبوت کے وقت ایران کی
اخلاقی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’زمانہ نبوت کے وقت ایران کی
اخلاقی حالت دگرگوں تھی، شادی کا کوئی معروف قانون موجود نہ تھا، اگر کوئی
تھا تو وہ نظ انداز کر دیا گیا تھا۔‘‘
ایرانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی اور اگر کسی درجے پر اْسے
اہمیت بھی دی جاتی تو ایک غلام کی سی اہمیت مل پاتی۔
شوہر مجاز تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے ایک کو خواہ وہ بیاہتا بیوی
ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے شخص کو، جو انقلاب روزگار سے محتاج ہو گیا ہو، اس
غرض کے لیے دے دے کہ وہ اس کسب معاش کے کام میں مدد لے، اس میں عورت کی رضا
مندی نہ لی جاتی عورت کو شوہر کے مال و اسباب پر تصرف کا حق نہیں ہوتا تھا۔
ایرانیوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت ناپاک ہے اوراُس کی نظربد کا اثر
ہوتا ہے۔
ہنود و یہود کی تاریخ ہو کہ عیسائیت کی مہذب و متمدن دنیا، قبل از اسلام
مذاہب عالم میں عورت کو ہمیشہ نہایت کم تر حیثیت دی گئی۔ یہودیت میں عورت
کی حیثیت دگرگوں رہی۔یہودیت نے عورت کو جو حیثیت دی، اس سے معلوم ہوتا ہے
کہ عورت مکمل طور پر مرد کی غلام ہے اور اس کی محکوم ہے، وہ مرد کی مرضی کے
بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی، حقوق ملنے کی بات تو ایک طرف رہی، اْسے تمام
گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا۔ عائلی زندگی کے علاوہ عورت وصیت، شہادت اور
وراثت جیسے حقوق سے بھی محروم تھی، وراثت میں تو اْس کا کوئی حصہ نہ ہوتا
تھا۔
عورت کے بارے میں عیسائیت کا بھی وہی تصور ہے جو یہودی نظریات میں ملتا ہے۔
عیسائیت عورت کے بارے میں کوئی بھرپور اخلاقی عقیدہ نہ اپنا سکی۔
شاہ معین الدین ندوی عیسائیت میں عورت کی حالت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے
ہیں،
’’عورت سراپا فتنہ و شر سمجھی جاتی تھی، عابد و زاہد اُس کے سائے سے بھاگتے
تھے، بڑے بڑے راہب اپنی ماں تک سے ملنا، اور اس کے چہرہ پر نظر ڈالنا معصیت
سمجھتے تھے۔ رہبانیت کی تاریخ عورت سے نفرت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔‘‘
اپنے قدیم تمدن پر نازاں ہندوستان کے مذہب ہندومت نے بھی عورت کی حیثیت
پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ ہندومت میں عورت پر ظلم کی سب سے
بڑی مثال ستی کی رسم میں، جس میں بیوی کو مرجانے والے شوہر کے ساتھ زندہ جل
جانا ہوتا تھا۔
ہندو مذہب میں عورت کی حیثیت یہ تھی کہ اس کی کسی بات کو معتبر نہیں سمجھا
جاتا تھا، جھوٹ اور عورت کو ایک ہی سکے کے دو رْخ کی طرح قرار دیا گیا تھا،
منوسمرتی میں واضح درج ہے کہ ’’جھوٹ بولنا عوتوں کا ذاتی خاصہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر خالد علوی ہندو مت میں عورت کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے
ہیں’’رسم ستی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں، عورت کو
خلع اور وراثت کا کوئی حق نہیں، اس کے رشتہ دار جائیداد لیں گے، لیکن اس کو
کوئی حصہ نہیں ملے گا، اسے مذہبی تعلیم سے بھی محروم کیا جاتا تھا، سنسکرت
میں لڑکی کو ’’دوہتر‘‘ (دور کی ہوئی)‘ بیوی کو ’’پتنی‘‘(مملوکہ) کہا جاتا
ہے۔‘‘
جب ان معاشروں میں عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا تو اس کے لیے
تعلیم کا حق کیسے تسلیم کیا جاتا۔
ان تہذیبوں، معاشروں اور مذاہب کے برعکس اسلام نے عورت قابل احترام قرار
دیا اور اس کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا، جن میں علم حاصل کرنے کا حق
بھی شامل ہے۔ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا اس کی مثال میں تعلیم کا حق کو
بہ طور ثبوت پیش کرنا ہی کافی ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو اپنے حقوق کا
شعور دیتا ہے، سو تعلیم کا حق دے کر اسلام نے عورت کو اپنے ہونے کا شعور
دیا۔ حضورﷺ خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے، مسجد نبوی میں
ہفتے کا ایک دن خواتین کے لیے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔ (صحیح بخاری،
کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)
اسی طرح تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم
التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، علم لغت و نحو، علم طب، شاعری، کتابت،
وغیرہ میں منفرد مقام حاصل کیا۔
ہمیں عورت کے لیے تعلیم کی ضرورت کا سبق مغرب سے پڑھنے کی ضرورت نہیں اس کے
لیے ہمارے دین کے احکامات ہی کافی ہیں، بشرط یہ کہ ہم مذہب پر اپنی اغراض
اور روایات سے بلند ہوکر عمل کریں۔ |